تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ نے اس قسم کی وصیت حضرت ابو درداء ؓ اور حضرت ابو ذر غفاری ؓ کو بھی فرمائی تھی، چنانچہ حضرت ابو درداء ؓ فرماتے ہیں کہ مجھے میرے حبیب ﷺ نے تین باتوں کی وصیت فرمائی، میں زندگی بھر ان پر عمل پیرا رہوں گا: ہر ماہ کے تین روزے اشراق کی نماز اور سونے سے قبل وتروں کو ادا کرنا۔ (صحیح مسلم، صلاةالمسافرین، حدیث:1675(722)) حضرت ابوذر غفاری ؓ کہتے ہیں کہ مجھے بھی میرے حبیب رسول اللہ ﷺ نے تین باتوں کی وصیت کی تھی۔ اگر اللہ نے چاہا تو میں انہیں کبھی ترک نہیں کروں گا۔ مجھے نماز اشراق کی وصیت کی، سونے سے پہلے وتر پڑھنے کی تاکید فرمائی اور ہر ماہ تین روزے رکھنے کے متعلق فرمایا۔ (سنن النسائي، الصیام، حدیث:2406) رسول اللہ ﷺ نے ان تینوں حضرات کو تین باتوں کی وصیت فرمائی۔ یہ حضرات مالدار نہیں تھے، اس لیے ایسی باتوں کی تلقین فرمائی جن کا تعلق مال سے نہیں۔ آپ نے نماز اور روزے کی تلقین فرمائی جو بدنی عبادات میں اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔
(2) امام بخاری ؒ نے عنوان میں حضر کا ذکر کیا ہے۔ حدیث میں سفر و حضر کا کوئی بیان نہیں، لیکن زیادہ امکان یہی ہے کہ اس کا تعلق حضر سے ہے، اگرچہ سفر و حضر دونوں سے بھی ہو سکتا ہے لیکن صرف سفر کے ساتھ اسے معلق کرنا صحیح نہیں۔ (فتح الباري:75/3) دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی نماز اشراق کے متعلق روایات کتب حدیث میں مروی ہیں، چنانچہ حضرت ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اس قدر پابندی کے ساتھ نماز اشراق پڑھتے کہ ہم کہنا شروع کر دیتے کہ اب آپ اسے ترک نہیں کریں گے، پھر آپ ایک عرصے تک اسے ادا نہ کرتے حتی کہ ہم کہتے اب آپ اسے نہیں پڑھیں گے۔ (جامع الترمذي، الوتر، حدیث:477) اس نماز کی فضیلت کے متعلق حضرت ابو امامہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’نماز اشراق پڑھنے (کے لیے مسجد چل کر جانے) والے کو عمرہ کرنے والے کے برابر اجر ملتا ہے۔‘‘ (مسندأحمد:268/5) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ امام حاکم نے نماز اشراق کے متعلق ایک مستقل جز تصنیف کیا ہے جس میں تقریبا بیس صحابۂ کرام کی مرویات جمع کر کے نماز اشراق کی مشروعیت ثابت کی ہے۔ (فتح الباري:72/3)