تشریح:
(1) اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ ان تین مساجد کے سوا کسی اور طرف ان کے ذاتی شرف کی بنا پر بغرض عبادت سفر نہ کیا جائے کیونکہ دنیا کی تمام مساجد میں نماز پڑھنا ثواب کے اعتبار سے برابر ہے، البتہ جامع مساجد میں نمازیوں کی کثرت کے باعث زیادہ ثواب ہے اور دور سے چل کر مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے آنا کثرت اقدام کی وجہ سے زیادہ ثواب کا موجب ہے، نفس مسجد کے اعتبار سے ثواب میں کوئی تعارض نہیں، البتہ ان تین مساجد میں نماز پڑھنا ان کے ذاتی شرف کی بنا پر اللہ کے ہاں اجروثواب میں اضافے کا باعث ہے کیونکہ انہیں حضرات انبیائے کرام ؑ نے تعمیر کیا ہے۔
(2) مسجد حرام تمام لوگوں کا قبلہ ہے۔ مسجد نبوی کی بنیاد روز اول ہی سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے اور مسجد اقصیٰ پہلی امتوں کا قبلہ رہا ہے۔ ان تین مساجد کے علاوہ کسی بھی جگہ کا تقرب و عبادت کی نیت سے رخ کرنا جائز نہیں کیونکہ یہ حکم امتناعی صرف مساجد سے متعلق نہیں بلکہ اس میں مزارات و مقابر اور دیگر مقدس مقامات بھی شامل ہیں جیسا کہ حضرت شہر بن حوشب کہتے ہیں کہ ہم چند لوگ کوہ طور پر جانے کا ارادہ کیے ہوئے تھے۔ اس دوران میں ہماری سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے ملاقات ہوئی اور ہم نے ان سے اپنے ارادے کا اظہار کیا تو انہوں نے ہمارے سامنے رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث بایں الفاظ بیان فرمائی کہ تین مساجد کے علاوہ کسی طرف (تقرب کی نیت سے) سواری کو استعمال نہیں کرنا چاہیے، یعنی باقاعدہ سفر کا اہتمام نہیں کرنا چاہیے: ان میں ایک مسجد حرام، دوسری مسجد مدینہ اور تیسری مسجد اقصیٰ ہے۔ (مسندأحمد:93/3) حضرت قزعہ بن یحییٰ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے عرض کیا کہ میں جبل طور پر جانا چاہتا ہوں۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کا فرمان ذکر کیا کہ مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ کے علاوہ کہیں بھی (عبادت کی نیت سے) قصداً سفر کرنا منع ہے۔ لہذا تم جبل طور پر جانے کا ارادہ ترک کر دو۔ (مجمع الزوائد:4/4) سیدنا ابو بصرہ غفاری ؓ کی حدیث ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں۔ ان تمام احادیث سے معلوم ہوا کہ تین مساجد (اور مسجد قباء) کے علاوہ کسی اور جگہ عبادت یا زیارت کی نیت سے جانا منع ہے اور اس نہی کو مساجد سے خاص کرنا بھی صحیح نہیں کیونکہ جبل طور کوئی مسجد نہیں بلکہ ایک مقام ہے جہاں حضرت موسیٰ ؑ کو اپنے رب سے کلام کرنے کا شرف حاصل ہوا تھا، البتہ اپنے کسی عزیز سے ملاقات یا حصول علم کے لیے رخت سفر باندھنا اس نہی کے تحت نہیں آتا، چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ اس حدیث پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں: کسی بھی مسجد یا مکان یا دیگر کسی جگہ کا سفر اس نیت سے نہ کیا جائے کہ ان مساجد و مکانات کی زیارت رضائے الٰہی کا باعث ہے، البتہ یہ تین مساجد یہ مقام رکھتی ہیں جن کی طرف اہتمام سے سفر کیا جا سکتا ہے، ہاں! کسی کی ملاقات یا تحصیل علم کے لیے سفر کرنا اس ممانعت میں داخل نہیں، کیونکہ یہ سفر کسی مکان یا مدرسے کی عمارت کے لیے نہیں کیا جاتا بلکہ مکان کے مکین کی ملاقات اور مدرسے میں تحصیل علم کے لیے کیا جاتا ہے۔ (فتح الباري:86/3)
(3) واضح رہے کہ امام بخاری ؒ نے حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی پہلی حدیث کو انتہائی اختصار سے بیان کیا ہے۔ چونکہ اس کے متن کا آخری حصہ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی حدیث جیسا تھا، اس لیے اسے ذکر نہیں کیا۔ یہ حدیث تفصیل سے آگے ذکر ہو گی۔ (صحیح البخاري، فضل الصلاة في مسجد مکةوالمدینة، حدیث:1197)