باب:اس بارے میں کہ سونے سے پہلے رات کے وقت علمی باتیں کرنا جائز ہے
)
Sahi-Bukhari:
Knowledge
(Chapter: To speak about (religious) knowledge at night)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
119.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ نے اپنی آخری عمر میں ہمیں نماز عشاء پڑھائی۔ سلام کے بعد جب کھڑے ہوئے تو فرمایا: ’’تم اس رات کی اہمیت کو جانتے ہو، آج کی رات سے سو برس بعد کوئی شخص، جو اب زمین پر موجود ہے، زندہ نہیں رہے گا۔‘‘
تشریح:
1۔ سمر کے معنی چاند کی روشنی ہیں، پھر رات کی گفتگو کو سمر کہا جانے لگا۔ چونکہ اہل عرب دور جاہلیت میں چاند کے طلوع ہونے کے بعد کھلے میدان میں خاندانی مفاخر، قصہ گوئی، اشعار اور بے ہودہ باتوں میں وقت گزارتے تھے، جب چاند غروب ہوجاتا تو گھر واپس آتے۔ ان تمام خرافات کو بھی سمر کہتے ہیں۔ شریعت میں یہ ناجائز اور حرام ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کامقصد یہ ہے کہ اگر علمی مشاغل میں رات کا کچھ حصہ گزرجائے تو منع نہیں ہے۔ پہلے باب میں علمی مسائل کا ذکر تھا، اب علمی مناظروں اورچٹکلوں کا بیان ہے، نیز پہلے باب میں سونے کے بعد علمی گفتگو کا اثبات فرمایا تھا اور اس باب میں نماز عشاء کے بعد سونے سے قبل اس کا ثبوت دیا جا رہا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ بتاناچاہتے ہیں کہ صلاۃ عشاء کے بعد سمر نہیں ہونا چاہیے، اگر کیا جائے تو علم اور خیر کا سمر ہو، نہ کہ جاہلیت والا سمر کیونکہ اس کی ممانعت ہے۔ 2۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں ہمیں خبردار کیا ہے کہ سابقہ امتوں کے مقابلے میں تمہاری عمریں بہت کم ہیں جیسا کہ حدیث میں ہے کہ میری امت کی عمریں ساٹھ اور ستر کے درمیان ہیں۔ (جامع الترمذي، الزھد، حدیث: 2331) عمروں کے اس فرق کے ساتھ ذمے داری میں بھی بڑا فرق ہے۔ ان کے لیے لمبی عمروں میں کام مختصر ہوتا تھا جبکہ اس امت کی مختصر عمر میں کام بہت طویل ہے۔ اس بنا پر ہمیں اپنی ذمے داری کا احساس کرتے ہوئے اپنے فرائض کی ادائیگی میں ہمہ تن مشغول ہونا چاہیے۔ (فتح الباري: 280/1) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت خضر اب زندہ نہیں ہیں، کیونکہ اس حدیث کے مطابق سو سال بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پانے والا کوئی بھی زندہ نہیں رہا۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
118
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
116
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
116
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
116
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علم کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ علم، جہالت کی ضد ہے اور جہالت تاریکی کا نام جس میں واضح چیزیں بھی چھپی رہتی ہیں اور جب علم کی روشنی نمودار ہوتی ہے تو چھپی چیزیں بھی واضح ہونے لگتی ہیں۔ انھوں نے علم کی تعریف سے تعرض نہیں کیا، اس لیے کہ علم کو تعریف کی ضرورت نہیں۔عطرآں باشد کہ خود بیویدانہ کہ عطاربگوید نیز اشیاء کی حقیقت و ماہیت بیان کرنا اس کتاب کا موضوع نہیں ہے۔ایمانیات کے بعد کتاب العلم کا افتتاح کیا کیونکہ ایمان کے بعد دوسرا درجہ علم کا ہے۔اس کا ارشاد کلام الٰہی سے بھی ملتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:(يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ)( المجادلۃ 58۔11۔)"اللہ تعالیٰ تم میں سے اہل ایمان اور اہل علم کے درجات بلند کردے گا۔"اس آیت کریمہ میں پہلے اہل ایمان اور پھر اہل علم کا تذکرہ ہے چونکہ ایمان کی پابندی ہر مکلف پر سب سے پہلے عائد ہوتی ہے نیز ایمان سب سے افضل و اعلیٰ اور ہر علمی اور عملی خیر کا اساسی پتھر ہے، اس لیے علم سے پہلے ایمان کا تذکرہ ضروری تھا۔ ایمانیات کے بعد کتاب العلم لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو چیزیں ایمان میں مطلوب ہیں اور جن پر عمل کرنے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر ایمان اور علم میں ایک گہرا رشتہ بھی ہے وہ یہ کہ علم کے بغیر ایمان میں روشنی اور بالیدگی پیدا نہیں ہوتی اور نہ ایمان کے بغیر علوم و معاررف ہی لائق اعتنا ہیں۔کتاب العلم کو دیگر ابواب سے پہلے بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر ابواب کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے اور اللہ کے ہاں اس عمل کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوگا جوعلی وجہ البصیرت کیا جائے گا۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دنیاوی علوم میں مہارت پیدا کرنا کوئی پسندیدہ اور کار آمد مشغلہ نہیں کیونکہ ان کا فائدہ عارضی اور چند روز ہے۔ ان کے نزدیک اصل علم قرآن و حدیث کا علم ہے۔ پھر ان دونوں کے متعلق اللہ کی عطا کردہ فہم و فراست ہے کیونکہ ایسے معارف کا نفع مستقل اور پائیدار ہے پھر اگر اس علم کو اخلاص و عمل سے آراستہ کر لیا جائے تو آخرت میں ذریعہ نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اکثریت کے متعلق بایں الفاظ شکوہ کیا ہے:(يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ)"وہ تو دنیا وی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں۔اور اخروی معاملات سے تو بالکل ہی بے خبر ہیں۔"( الروم :30۔7۔)اس بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب العلم میں حقیقی علم کی اہمیت و حیثیت ،افادیت ،علم حدیث، اس کے آداب وفضائل ، اس کی حدود و شرائط ، آداب تحمل حدیث ،آداب تحدیث ، صیغ ادا، رحلات علمیہ، کتابت حدیث،آداب طالب ، آداب شیخ ، فتوی ، آداب فتوی اور ان کے علاوہ بے شمار علمی حقائق و معارف کو بیان کیا ہے جن کی مکمل تفصیل اس تمہیدی گفتگو میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ آئندہ صفحات میں موقع و محل کے مطابق ایسے علمی جواہرات کی وضاحت کی جائے گی۔ قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ ان تمہیدی گزارشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب العلم کا مطالعہ کریں۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ نے اپنی آخری عمر میں ہمیں نماز عشاء پڑھائی۔ سلام کے بعد جب کھڑے ہوئے تو فرمایا: ’’تم اس رات کی اہمیت کو جانتے ہو، آج کی رات سے سو برس بعد کوئی شخص، جو اب زمین پر موجود ہے، زندہ نہیں رہے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ سمر کے معنی چاند کی روشنی ہیں، پھر رات کی گفتگو کو سمر کہا جانے لگا۔ چونکہ اہل عرب دور جاہلیت میں چاند کے طلوع ہونے کے بعد کھلے میدان میں خاندانی مفاخر، قصہ گوئی، اشعار اور بے ہودہ باتوں میں وقت گزارتے تھے، جب چاند غروب ہوجاتا تو گھر واپس آتے۔ ان تمام خرافات کو بھی سمر کہتے ہیں۔ شریعت میں یہ ناجائز اور حرام ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کامقصد یہ ہے کہ اگر علمی مشاغل میں رات کا کچھ حصہ گزرجائے تو منع نہیں ہے۔ پہلے باب میں علمی مسائل کا ذکر تھا، اب علمی مناظروں اورچٹکلوں کا بیان ہے، نیز پہلے باب میں سونے کے بعد علمی گفتگو کا اثبات فرمایا تھا اور اس باب میں نماز عشاء کے بعد سونے سے قبل اس کا ثبوت دیا جا رہا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ بتاناچاہتے ہیں کہ صلاۃ عشاء کے بعد سمر نہیں ہونا چاہیے، اگر کیا جائے تو علم اور خیر کا سمر ہو، نہ کہ جاہلیت والا سمر کیونکہ اس کی ممانعت ہے۔ 2۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں ہمیں خبردار کیا ہے کہ سابقہ امتوں کے مقابلے میں تمہاری عمریں بہت کم ہیں جیسا کہ حدیث میں ہے کہ میری امت کی عمریں ساٹھ اور ستر کے درمیان ہیں۔ (جامع الترمذي، الزھد، حدیث: 2331) عمروں کے اس فرق کے ساتھ ذمے داری میں بھی بڑا فرق ہے۔ ان کے لیے لمبی عمروں میں کام مختصر ہوتا تھا جبکہ اس امت کی مختصر عمر میں کام بہت طویل ہے۔ اس بنا پر ہمیں اپنی ذمے داری کا احساس کرتے ہوئے اپنے فرائض کی ادائیگی میں ہمہ تن مشغول ہونا چاہیے۔ (فتح الباري: 280/1) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت خضر اب زندہ نہیں ہیں، کیونکہ اس حدیث کے مطابق سو سال بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پانے والا کوئی بھی زندہ نہیں رہا۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
سعید بن عفیر نے ہم سے بیان کیا، ان سے لیث نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمن بن خالد بن مسافر نے ابن شہاب کے واسطے سے بیان کیا، انھوں نے سالم اور ابوبکر بن سلیمان بن ابی حثمہ سے روایت کیا کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے فرمایا کہ آخر عمر میں (ایک دفعہ) رسول اللہ ﷺ نے ہمیں عشاء کی نماز پڑھائی۔ جب آپ ﷺ نے سلام پھیرا تو کھڑے ہو گئے اور فرمایا کہ تمہاری آج کی رات وہ ہے کہ اس رات سے سو برس کے آخر تک کوئی شخص جو زمین پر ہے وہ باقی نہیں رہے گا۔
حدیث حاشیہ:
مطلب یہ ہے کہ عام طور پر اس امت کی عمریں سو برس سے زیادہ نہ ہوں گی، یا یہ کہ آج کی رات میں جس قدر انسان زندہ ہیں سو سال کے آخر تک یہ سب ختم ہو جائیں گے۔ اس رات کے بعد جو نسلیں پیدا ہوں گی ان کی زندگی کی نفی مراد نہیں ہے۔ محققین کے نزدیک اس کا مطلب یہی ہے اور یہی ظاہر لفظوں سے سمجھ میں آتا ہے۔ چنانچہ سب سے آخری صحابی ابو طفیل عامر بن واثلہ کا ٹھیک سو برس بعد 110 برس کی عمرمیں انتقال ہوا مقصد یہ ہے کہ درس وتدریس وعظ وتذکیر بوقت ضرورت دن اور رات کے ہر حصہ میں جائز اور درست ہے۔ خصوصاً طلباء کے لیے رات کا پڑھنا دل و دماغ پر نقش ہو جاتا ہے۔ اس حدیث سے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے دلیل پکڑی ہے کہ حضرت خضرعلیہ السلام کی زندگی کا خیال صحیح نہیں۔ اگر وہ زندہ ہوتے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ضرور ملاقات کرتے۔ بعض علماء ان کی حیات کے قائل ہیں۔ واللہ أعلم بالصواب۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Umar (RA): Once the Prophet (ﷺ) led us in the 'Isha' prayer during the last days of his life and after finishing it (the prayer) (with Taslim) he said: "Do you realize (the importance of) this night?" Nobody present on the surface of the earth tonight will be living after the completion of one hundred years from this night."