تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس باب میں حفاظت علم کی اہمیت اور اس کے اسباب کو بیان کیا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ علم سیکھنے کے بعد اسے محفوظ رکھنے کی کوشش کرے کیونکہ علم کے ساتھ بے اعتنائی کفران نعمت ہے، نیز تعلیم و تبلیغ اور عمل بھی اسی بات پر موقوف ہے کہ معلومات کو محفوظ رکھا جائے۔ پہلی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان علم کے ساتھ جس قدر شغف اور مشغولیت رکھے گا، اسی قدر یادداشت تیز اور قوت حافظہ میں ترقی ہوگی، نیز دنیا کے تمام دھندوں سے الگ ہو کر علم حدیث کی خدمت میں مصروف ہوجائے۔ سیدنا راوی اسلام حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی علم حدیث کے حصول کے لیے دنیا کی ہرآسائش کو قربان کردیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ستودہ صفات سے وابستہ ہوگئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اور رفاقت صرف ساڑھے تین سال تک رہی لیکن سماع حدیث میں کوئی دوسرا صحابی ان کا ہم پلہ نہیں ہے۔ آپ کو نہ تنخواہ کی ضرورت اور نہ وظیفے کی طلب، آپ کے میزبان خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے، پیٹ بھر کر کھانا مل جاتا اور علم حدیث کے حصول میں ہمہ وقت مصروف رہتے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس باب میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تین روایات پیش کی ہیں کیونکہ آپ کو تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے زیادہ حدیثیں یاد تھیں۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما جب ان کے جنازے میں شریک ہوئے تو ان کی اس خصوصیت کو بایں الفاظ بیان کیا: ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اہل اسلام کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو محفوظ رکھنے والے تھے۔ اگرچہ آپ نے اپنی تمام معلومات کو بیان نہیں کیا، اس کے باوجود آپ کی مرویات دیگرتمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے زیادہ ہیں۔ (فتح الباري: 282/1)
2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک دوسری روایت میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بات کو مزید وضاحت سے نقل کیا ہے: تم کہتے ہو کہ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث بکثرت بیان کرتا ہے اور انصار و مہاجرین حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرح زیادہ احادیث کیوں نہیں بیان کرتے؟ (صحیح البخاري، البیوع، حدیث: 2047) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان حدیث کے سلسلے میں اپنی احتیاط بایں الفاظ بیان کرتے ہیں کہ قرآن کریم کی دو آیات نہ ہوتیں تو میں کبھی کچھ بیان نہ کرتا، وہ آیات یہ ہیں: ﴿إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَىٰ مِن بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ ۙ أُولَـٰئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّـهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ﴾﴿إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا وَأَصْلَحُوا وَبَيَّنُوا فَأُولَـٰئِكَ أَتُوبُ عَلَيْهِمْ ۚ وَأَنَا التَّوَّابُ الرَّحِيمُ﴾(البقرة: 1؍ 159، 160) ’’جو لوگ ہماری اتاری ہوئی دلیلوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں باوجودیکہ ہم اسے اپنی کتاب میں لوگوں کے لئے بیان کرچکے ہیں، ان لوگوں پر اللہ کی اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت ہے (159) مگر وه لوگ جو توبہ کرلیں اور اصلاح کرلیں اور بیان کردیں، تو میں ان کی توبہ قبول کرلیتا ہوں اور میں توبہ قبول کرنے والا اور رحم وکرم کرنے والا ہوں‘‘ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہ تجارت کی مشغولیات تھیں اور نہ کاشتکاری کی مصروفیات، بلکہ آپ معاشی مشکلات سے بھی بے پروا تھے، بلکہ خود بیان کرتے ہیں کہ صفہ کے مساکین کی طرح میں بھی ایک مسکین آدمی تھا اورہروقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستہ رہتا تھا۔ (صحیح البخاري، البیوع، حدیث: 2047) اس کی تائید حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک بیان سے بھی ہوتی ہے، فرماتے ہیں: اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی باتیں سنیں، جو ہم نے نہیں سنیں، کیونکہ آپ ایک مسکین آدمی تھے، کوئی گھر بار نہ تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی کھاتے اور آپ کے ساتھ ہی رہتے۔ (المستدرك للحاکم: 511/3) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہم سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستہ رہتے اورآپ کی احادیث کو ہم سے زیادہ جاننے والے تھے۔ (فتح الباري: 283/1)
3۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی پیش کردہ دوسری حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ قوت حافظہ ایک عطیہ ربانی ہے مگر اس کے کچھ ظاہری اسباب بھی ہوتے ہیں جوعطائے ربانی کاذریعہ بنتے ہیں۔ ان میں سے ایک صالحین کی خصوصی توجہ اور ان کی دعائیں ہیں جو ان کی مخلصانہ خدمت گزاری اور اطاعت شعاری سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔ اس حدیث میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی قوت یادداشت کے متعلق ایک حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے کہ میں نے اپنے حافظے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مخصوص دعا بھی حاصل کی ہے۔ الغرض جو کچھ تم دیکھ رہے ہو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت ہے۔
4۔ اس دوسری حدیث کے عموم کا تقاضا ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نسیان کو بالکل ختم کردیا گیا۔ حدیث اور دیگر معاملات میں آپ اس کا شکار نہ ہوتے تھے۔ لیکن صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتےہیں: دعائے نبوی کے بعد مجھے احادیث کے سلسلے میں کبھی نسیان لاحق نہیں ہوا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے متعلق آ پ کا نسیان ختم کر دیا گیا، جبکہ صحیح بخاری ہی کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے متعلق آپ کا نسیان ختم کر دیا گیا، جبکہ صحیح بخاری کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ مجلس دعا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو احادیث بیان فرمائیں وہ ہمیشہ کے لیے یاد رہیں، ان کے متعلق نسیان نہیں ہوا۔ ان روایات میں کچھ تعارض معلوم ہوتا ہے، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے بعد احادیث کے متعلق کبھی نسیان لاحق نہیں ہوا۔ اس پر یہ اعتراض ہوسکتا ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک شاگرد حضرت ابوسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب آپ کے سامنے«لَا عَدْوَی وَلَا طِیَرَۃَ» حدیث بیان کی توحضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: مجھے یاد نہیں ہے۔ اور محدثین اس روایت کو (نسي بعد ما حدث) کے باب میں بطور مثال پیش کرتے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ کبھی کبھار ایسا ہو سکتا ہے، نیز یہ کیا ضروری ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی بھولے ہوں بلکہ حضرت ابوسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شاگرد ہیں خود ہی بھول گئے ہوں، انھوں نے کسی اور سے حدیث سنی ہو اور اس کی نسبت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف کردی ہو۔ ایک جواب یہ بھی دیا گیا ہےکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت بھولے نہیں تھے بلکہ انھوں نے جب شاگرد کو دیکھا کہ کم فہم ہے اور روایات میں ٹکراؤ پیدا کرتا ہے توانکار کردیا۔
5۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا کہ آپ کی دعا سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نسیان کو ختم کردیا گیا، حالانکہ یہ انسانی لوازمات سے ہے۔
6۔ تیسری حدیث میں یہ راہنمائی ہے کہ جن علوم کی اشاعت سے عوام میں فتنہ فساد کا اندیشہ ہو، انھیں لوگوں میں نہیں پھیلانا چاہیے۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس منافقین کے متعلق معلومات تھیں جسے انھوں نے نہیں پھیلایا۔ اسی طرح ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بھی کچھ حوادثات اور فتن کے متعلق علوم تھے جن کی اشاعت فتنے فساد کا باعث ہوسکتی تھی، اس لیے آپ نے ان کی اشاعت نہیں فرمائی۔ اس کے متعلق حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے علم کے دو برتن یاد کیے، ایک برتن کے علوم کو میں نے عام کردیا جو حلال و حرام، عقائد و نظریات سے متعلق تھے، لیکن دوسرے برتن کے علوم عام طور پر پھیلانے کے نہیں ہیں۔ بعض روایات میں تین برتنوں کے علوم کی صراحت ہے۔ ان میں بظاہر تعارض ہے لیکن اگر غور کیاجائے تو ان میں کوئی تضاد نہیں، کیونکہ حلت وحرمت کے متعلقہ علوم دوسرے علوم کے مقابلے میں دوگنا ہیں، جہاں ان کے دوگنا ہونے کی رعایت فرمائی، وہاں تین برتن کہا اور جہاں ان کی رعایت نہیں کی، وہاں دو برتن کہہ دیا۔ (فتح الباري: 286/1)
7۔ جن علوم کو آپ نے نہیں پھیلایا، ان سے مراد ایسی احادیث ہیں جن میں نام بنام ظالم وجابر حکام کے حق میں وعیدیں ہیں اور ان میں حوادثات اور فتنوں کی پیشین گوئیاں بھی ہیں۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کبھی کبھار اشارے کے طور پر ان کا ذکر بھی کر دیتے تھے جیسا کہ آپ نے فرمایا: اے اللہ! میں 60 ہجری کے شر اوربچوں کی حکومت سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ اس سال امت میں بہت فتنے برپا ہوئے اور مسلمانوں کی جماعت میں انتشار پیدا ہوا۔ یہ سال بنو امیہ کی حکومت کا ہے۔ اگرچہ ان کی اسلامی خدمات بہت ہیں لیکن ان کے کردار میں کچھ خامیاں بھی تھیں۔ اس پر فتن دور میں ایسی احادیث بیان کرنے سے جان کوخطرہ تھا، لہٰذا مصلحتاً آپ نے خاموشی اختیار کی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دعا کو اللہ تعالیٰ نے شرف قبولیت سے نوازا اور آپ59 ہجری میں فوت ہوگئے۔ (فتح الباري: 286/1)
ملحوظہ: صحیح بخاری کے بعض نسخوں میں تیسری حدیث کے آخر میں یہ الفاظ ہیں: امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: بلعوم، گلے کا وہ حصہ ہےجس سے کھانا نیچے اترتا ہے۔