باب:اس بارے میں کہ سونے سے پہلے رات کے وقت علمی باتیں کرنا جائز ہے
)
Sahi-Bukhari:
Knowledge
(Chapter: To speak about (religious) knowledge at night)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
120.
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے ایک رات نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ، اپنی خالہ حضرت میمونہ بنت حارث ؓ کے ہاں بسر کی۔ اس رات نبی ﷺ بھی انہی کے پاس تھے۔ نبی ﷺ نے عشاء (مسجد میں) ادا کی، پھر اپنے گھر تشریف لائے اور چار رکعت پڑھ کر سو رہے۔ پھر بیدار ہوئے اور فرمایا: ’’کیا بچہ سو گیا ہے؟‘‘ یا اس سے ملتی جلتی بات فرمائی۔ اور پھر نماز پڑھنے لگے، میں بھی آپ کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ آپ نے مجھے اپنی دائیں جانب کر لیا اور پانچ رکعات پڑھیں۔ اس کے بعد دو رکعت (سنت فجر) ادا کیں۔ پھر سو گئے، یہاں تک کہ میں نے آپ کے خراٹے بھرنے کی آواز سنی۔ پھر (صبح کی) نماز کے لیے باہر تشریف لے گئے۔
تشریح:
1۔ اس حدیث کا عنوان سے تعلق ظاہر کرنے کے لیے مختلف انداز اختیار کیے گئے ہیں۔ (الف)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بچہ سوگیا ہے؟‘‘ اس سے عنوان ثابت ہوتا ہے کیونکہ آپ نے حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے خطاب فرماتے ہوئے یہ کلمہ کہا تھا۔ (ب)۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ساری رات بیدار رہ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات کو دیکھنا اور سیکھنا سمربالعلم ہے، گویا ان کے عمل سے عنوان ثابت ہوگیا ہے۔ (ج)۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو بائیں جانب سے ہٹا کر دائیں جانب کھڑا کیا تو گویا آپ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ میری دائیں جانب کھڑے ہو جاؤ، اس سے عنوان ثابت ہوتا ہے۔ لیکن یہ سب تکلفات ہیں۔ دراصل امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی عادت یہ ہے کہ وہ طالب علم کے ذہن کو تیز کرتے ہیں اور حدیث کے مختلف طرق پر نظر رکھنے کے لیے بسا اوقات ایسا کرتے ہیں اور دوسرے طریق سے عنوان ثابت کرتے ہیں جو کسی دوسری جگہ پر بیان ہوتا ہے۔ یہی روایت ایک دوسرے مقام پر بایں الفاظ ہے کہ آپ نے کچھ وقت اپنی اہلیہ کے ساتھ گفتگو کی۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4569) ان الفاظ سے عنوان کا ثبوت ملتا ہے اس سے کوئی تکلف یا دقت بھی نہیں ہوتی اور نہ اس میں کوئی خلاف عقل بات ہی ہے۔ (فتح الباري: 282/1) 2۔ ایک حدیث میں ہے کہ سمر (رات کو گفتگو) کی اجازت صرف نماز پڑھنے والے اور راستہ طے کرنے والے کو ہے۔ (مسند احمد: 444/1) اس سے شبہ ہوتا ہے کہ ان کے ماسوا کے لیے سمر جائز نہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ سمر فی العلم، سمر فى الصلاة کے ساتھ معلق ہے۔ حضرت عمر اور حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما رات بھر علمی مذاکرے میں مصروف رہے۔ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب نماز کے متعلق کہا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہم پہلے بھی نماز ہی میں تھے۔ اس لیے یہ حدیث رات کو علمی گفتگو کرنے کے خلاف نہیں۔ (فتح الباري: 282/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
119
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
117
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
117
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
117
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علم کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ علم، جہالت کی ضد ہے اور جہالت تاریکی کا نام جس میں واضح چیزیں بھی چھپی رہتی ہیں اور جب علم کی روشنی نمودار ہوتی ہے تو چھپی چیزیں بھی واضح ہونے لگتی ہیں۔ انھوں نے علم کی تعریف سے تعرض نہیں کیا، اس لیے کہ علم کو تعریف کی ضرورت نہیں۔عطرآں باشد کہ خود بیویدانہ کہ عطاربگوید نیز اشیاء کی حقیقت و ماہیت بیان کرنا اس کتاب کا موضوع نہیں ہے۔ایمانیات کے بعد کتاب العلم کا افتتاح کیا کیونکہ ایمان کے بعد دوسرا درجہ علم کا ہے۔اس کا ارشاد کلام الٰہی سے بھی ملتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:(يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ)( المجادلۃ 58۔11۔)"اللہ تعالیٰ تم میں سے اہل ایمان اور اہل علم کے درجات بلند کردے گا۔"اس آیت کریمہ میں پہلے اہل ایمان اور پھر اہل علم کا تذکرہ ہے چونکہ ایمان کی پابندی ہر مکلف پر سب سے پہلے عائد ہوتی ہے نیز ایمان سب سے افضل و اعلیٰ اور ہر علمی اور عملی خیر کا اساسی پتھر ہے، اس لیے علم سے پہلے ایمان کا تذکرہ ضروری تھا۔ ایمانیات کے بعد کتاب العلم لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو چیزیں ایمان میں مطلوب ہیں اور جن پر عمل کرنے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر ایمان اور علم میں ایک گہرا رشتہ بھی ہے وہ یہ کہ علم کے بغیر ایمان میں روشنی اور بالیدگی پیدا نہیں ہوتی اور نہ ایمان کے بغیر علوم و معاررف ہی لائق اعتنا ہیں۔کتاب العلم کو دیگر ابواب سے پہلے بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر ابواب کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے اور اللہ کے ہاں اس عمل کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوگا جوعلی وجہ البصیرت کیا جائے گا۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دنیاوی علوم میں مہارت پیدا کرنا کوئی پسندیدہ اور کار آمد مشغلہ نہیں کیونکہ ان کا فائدہ عارضی اور چند روز ہے۔ ان کے نزدیک اصل علم قرآن و حدیث کا علم ہے۔ پھر ان دونوں کے متعلق اللہ کی عطا کردہ فہم و فراست ہے کیونکہ ایسے معارف کا نفع مستقل اور پائیدار ہے پھر اگر اس علم کو اخلاص و عمل سے آراستہ کر لیا جائے تو آخرت میں ذریعہ نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اکثریت کے متعلق بایں الفاظ شکوہ کیا ہے:(يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ)"وہ تو دنیا وی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں۔اور اخروی معاملات سے تو بالکل ہی بے خبر ہیں۔"( الروم :30۔7۔)اس بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب العلم میں حقیقی علم کی اہمیت و حیثیت ،افادیت ،علم حدیث، اس کے آداب وفضائل ، اس کی حدود و شرائط ، آداب تحمل حدیث ،آداب تحدیث ، صیغ ادا، رحلات علمیہ، کتابت حدیث،آداب طالب ، آداب شیخ ، فتوی ، آداب فتوی اور ان کے علاوہ بے شمار علمی حقائق و معارف کو بیان کیا ہے جن کی مکمل تفصیل اس تمہیدی گفتگو میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ آئندہ صفحات میں موقع و محل کے مطابق ایسے علمی جواہرات کی وضاحت کی جائے گی۔ قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ ان تمہیدی گزارشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب العلم کا مطالعہ کریں۔
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے ایک رات نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ، اپنی خالہ حضرت میمونہ بنت حارث ؓ کے ہاں بسر کی۔ اس رات نبی ﷺ بھی انہی کے پاس تھے۔ نبی ﷺ نے عشاء (مسجد میں) ادا کی، پھر اپنے گھر تشریف لائے اور چار رکعت پڑھ کر سو رہے۔ پھر بیدار ہوئے اور فرمایا: ’’کیا بچہ سو گیا ہے؟‘‘ یا اس سے ملتی جلتی بات فرمائی۔ اور پھر نماز پڑھنے لگے، میں بھی آپ کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ آپ نے مجھے اپنی دائیں جانب کر لیا اور پانچ رکعات پڑھیں۔ اس کے بعد دو رکعت (سنت فجر) ادا کیں۔ پھر سو گئے، یہاں تک کہ میں نے آپ کے خراٹے بھرنے کی آواز سنی۔ پھر (صبح کی) نماز کے لیے باہر تشریف لے گئے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ اس حدیث کا عنوان سے تعلق ظاہر کرنے کے لیے مختلف انداز اختیار کیے گئے ہیں۔ (الف)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بچہ سوگیا ہے؟‘‘ اس سے عنوان ثابت ہوتا ہے کیونکہ آپ نے حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے خطاب فرماتے ہوئے یہ کلمہ کہا تھا۔ (ب)۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ساری رات بیدار رہ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات کو دیکھنا اور سیکھنا سمربالعلم ہے، گویا ان کے عمل سے عنوان ثابت ہوگیا ہے۔ (ج)۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو بائیں جانب سے ہٹا کر دائیں جانب کھڑا کیا تو گویا آپ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ میری دائیں جانب کھڑے ہو جاؤ، اس سے عنوان ثابت ہوتا ہے۔ لیکن یہ سب تکلفات ہیں۔ دراصل امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی عادت یہ ہے کہ وہ طالب علم کے ذہن کو تیز کرتے ہیں اور حدیث کے مختلف طرق پر نظر رکھنے کے لیے بسا اوقات ایسا کرتے ہیں اور دوسرے طریق سے عنوان ثابت کرتے ہیں جو کسی دوسری جگہ پر بیان ہوتا ہے۔ یہی روایت ایک دوسرے مقام پر بایں الفاظ ہے کہ آپ نے کچھ وقت اپنی اہلیہ کے ساتھ گفتگو کی۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4569) ان الفاظ سے عنوان کا ثبوت ملتا ہے اس سے کوئی تکلف یا دقت بھی نہیں ہوتی اور نہ اس میں کوئی خلاف عقل بات ہی ہے۔ (فتح الباري: 282/1) 2۔ ایک حدیث میں ہے کہ سمر (رات کو گفتگو) کی اجازت صرف نماز پڑھنے والے اور راستہ طے کرنے والے کو ہے۔ (مسند احمد: 444/1) اس سے شبہ ہوتا ہے کہ ان کے ماسوا کے لیے سمر جائز نہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ سمر فی العلم، سمر فى الصلاة کے ساتھ معلق ہے۔ حضرت عمر اور حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما رات بھر علمی مذاکرے میں مصروف رہے۔ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب نماز کے متعلق کہا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہم پہلے بھی نماز ہی میں تھے۔ اس لیے یہ حدیث رات کو علمی گفتگو کرنے کے خلاف نہیں۔ (فتح الباري: 282/1)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے آدم نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم کو شعبہ نے خبر دی، ان کو حکم نے کہا کہ میں نے سعید بن جبیر سے سنا، وہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے نقل کرتے ہیں کہ ایک رات میں نے اپنی خالہ میمونہ بنت الحارث ؓ زوجہ نبی کریم ﷺ کے پاس گزاری اور نبی کریم ﷺ (اس دن) ان کی رات میں ان ہی کے گھر تھے۔ آپ ﷺ نے عشاء کی نماز مسجد میں پڑھی۔ پھر گھر تشریف لائے اور چار رکعت (نماز نفل) پڑھ کر آپ ﷺ سو گئے، پھر اٹھے اور فرمایا کہ (ابھی تک یہ) لڑکا سو رہا ہے یا اسی جیسا لفظ فرمایا۔ پھر آپ (نماز پڑھنے) کھڑے ہو گئے اور میں (بھی وضو کر کے) آپ کی بائیں طرف کھڑا ہو گیا۔ تو آپ ﷺ نے مجھے دائیں جانب (کھڑا) کر لیا، تب آپ ﷺ نے پانچ رکعت پڑھیں۔ پھر دو پڑھیں، پھر آپ ﷺ سو گئے۔ یہاں تک کہ میں نے آپ ﷺ کے خراٹے کی آواز سنی، پھر آپ کھڑے ہو کر نماز کے لیے (باہر) تشریف لے آئے۔
حدیث حاشیہ:
کتاب التفسیر میں بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ حدیث ایک دوسری سند سے نقل کی ہے۔ وہاں یہ الفاظ زیادہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ دیر حضرت میمونہ رضی اللہ عنہ سے باتیں کیں اور پھر سوگئے، اس جملے سے اس حدیث کی باب سے مطابقت صحیح ہوجاتی ہے۔ یعنی سونے سے پہلے رات کو علمی گفتگو کرنا جائز ودرست ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA): I stayed overnight in the house of my aunt Maimuna bint Al-Harith (the wife of the Prophet (ﷺ)) while the Prophet (ﷺ) was there with her during her night turn. The Prophet (ﷺ) offered the 'Isha' prayer (in the mosque), returned home and after having prayed four Rakat, he slept. Later on he got up at night and then asked whether the boy (or he used a similar word) had slept? Then he got up for the prayer and I stood up by his left side but he made me stand to his right and offered five Rakat followed by two more Rakat. Then he slept and I heard him snoring and then (after a while) he left for the (Fajr) prayer.