تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دوران نماز گفتگو کرنے کی ممانعت مدینہ طیبہ میں ہوئی کیونکہ حضرت زید بن ارقم ؓ انصاری ہیں اور وہ مدینہ منورہ میں مسلمان ہوئے تھے۔ اس حدیث میں جس آیت کا حوالہ ہے وہ بھی مدنی ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ بھی مدینہ منورہ ہی میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اور سلام عرض کیا تھا جبکہ آپ نماز پڑھ رہے تھے۔ ان سے مروی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’نماز میں اللہ کا ذکر ہونا چاہیے، اس لیے اللہ کے حضور ادب سے کھڑے ہوا کرو۔‘‘ اس کے بعد ہمیں خاموش رہنے کا حکم دیا گیا۔ اس روایت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ دوران نماز میں گفتگو کرنے کی حرمت اس آیت کریمہ سے ہوئی جو سورۂ بقرہ میں ہے۔ (فتح الباري:97/3)
(2) بھول کر یا عدم علم کی بنا پر دوران نماز میں گفتگو کرنا نماز کو باطل نہیں کرتا کیونکہ حدیث میں ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے میری امت سے غلطی یا بھول کر کیے ہوئے گناہوں کو معاف کر دیا ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجة، الطلاق، حدیث:2043) نیز حضرت معاویہ بن حکم ؓ کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نماز پڑھ رہا تھا کہ اچانک ایک آدمی کو دوران نماز میں چھینک آئی تو میں نے نماز ہی میں يرحمك الله کہہ دیا۔ اس پر لوگوں نے مجھے گھور گھور کر دیکھنا شروع کر دیا۔ میں نے کہا: ہائے! میری ماں مجھے گم پائے، کیا بات ہے؟ تم مجھے غصے سے کیوں دیکھ رہے ہو؟ اس پر انہوں نے اپنی رانوں پر ہاتھ مارنا شروع کر دیے جس سے میں نے محسوس کیا کہ وہ مجھے خاموش کرانا چاہتے ہیں تو میں خاموش ہو گیا۔ جب رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! میں نے آپ سے پہلے اور آپ کے بعد کوئی ایسا معلم نہیں دیکھا جو تعلیم دینے میں آپ سے بہتر ہو، اللہ کی قسم! آپ نے مجھے ڈانٹا، نہ مارا اور نہ کرخت لہجہ ہی اختیار کیا بلکہ آپ نے نرمی سے فرمایا: ’’نماز میں انسانی گفتگو کی گنجائش نہیں بلکہ اس میں تو صرف تسبیح، تکبیر اور تلاوت قرآن ہونی چاہیے۔‘‘ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1199(537)) اس حدیث سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ جہالت کی وجہ سے اگر دوران نماز میں گفتگو ہو جائے تو اس سے نماز باطل نہیں ہوتی۔ اگر ایسا ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اس شخص کو دوبارہ نماز پڑھنے کا حکم دیتے لیکن آپ نے اسے صرف اس حکم سے آگاہ کرنے پر اکتفا کیا۔ واللہ أعلم۔