تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے ایک مرفوع حدیث کو عنوان میں بیان کیا ہے۔ حضرت معاذ بن جبل ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس کی آخری بات لا إله إلا الله ہو وہ جنت میں داخل ہو گا۔‘‘ (سنن أبي داود، الجنائز، حدیث 3116) اس عنوان سے امام بخاری ؒ کا مقصود یہ ہے کہ جو شخص لا إله إلا الله کہے اور اس پر اسے موت آ جائے، نیز وہ کسی کو اللہ کا شریک نہ بنائے، وہ جنت میں داخل ہو گا۔ یہ بھی احتمال ہے کہ امام بخاری ؒ کی مراد یہ ہو کہ جو کوئی موت کے وقت اخلاص سے لا إله إلا الله کہے، ایسا کرنے سے اس کے پہلے گناہ معاف ہو جائیں گے اور وہ جنت میں داخل ہو گا، کیونکہ اخلاص توبہ اور ندامت کو لازم ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص زنا اور حقوق العباد (جیسے چوری) وغیرہ کا مرتکب ہی کیوں نہ ہو، ایسے حالات میں حقوق العباد کی ادائیگی کے متعلق اللہ تعالیٰ ضرور کوئی صورت پیدا کر دے گا۔ والله أعلم۔
(2) حضرت ابن مسعود ؓ کے قول سے امام بخاری ؒ یہ وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ جنت میں داخلے کے لیے مرتے وقت کلمہ اخلاص کا پڑھنا ضروری نہیں، بلکہ اس سے مراد توحید کا عقیدہ رکھنا اور اسی عقیدے پر مرنا ہے۔ ہمارے نزدیک قائم کردہ عنوان اور پیش کردہ احادیث سے امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ مقصد ہے کہ مریض اور قریب المرگ آدمی کو کلمہ طیبہ کی تلقین کی جائے تاکہ اس کا خاتمہ ایمان پر ہو۔ اگرچہ تلقین کے متعلق واضح احادیث بھی کتب احادیث میں مروی ہیں، لیکن امام بخاری ؒ کی شرائط کے مطابق نہ تھیں، اس لیے انہیں پیش نہیں کیا گیا، چنانچہ صحیح مسلم میں ہے کہ اپنے قریب المرگ تعلق داروں کو لا إله إلا الله پڑھنے کی تلقین کرو۔ (صحیح مسلم، الجنائز، حدیث: 2123 (916)) تلقین کا مطلب یہ نہیں کہ اس کے پاس شہادتین کا ذکر کیا جائے، بلکہ اسے پڑھنے کے متعلق کہا جائے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ ایک انصاری کی تیمارداری کے لیے تشریف لے گئے تو آپ نے اسے کہا کہ لا إله إلا الله کہو۔ (مسند أحمد: 152/3)