تشریح:
(1) جن سات چیزوں سے منع کیا گیا ہے ان میں سے اس حدیث میں صرف چھے کا ذکر ہے، ساتویں چیز ریشمی گدیوں کا استعمال ہے جو سواری کی زین پر رکھی جاتی ہیں۔ اس کا ذکر بھی صحیح بخاری ہی کی حدیث: (5863) میں ہے۔ ان مامورات و منہیات کو ہم آئندہ تفصیل سے بیان کریں گے۔ اس مقام پر صرف جنازے میں شریک ہونے کی مشروعیت کو بیان کرنا مقصود ہے، اس کی فضیلت کا بیان آگے آئے گا۔
(2) جنازے کے آگے اور پیچھے دونوں طرف چلنا جائز ہے، لیکن لفظ اتباع کا تقاضا ہے کہ پیچھے پیچھے چلنا افضل ہے۔ علامہ البانی ؒ نے اسی کو ترجیح دی ہے۔ (أحکام الجنائز، ص: 96) اگرچہ رسول اللہ ﷺ ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ سے جنازے کے آگے چلنا بھی ثابت ہے۔ (سنن أبي داود، الجنائز، حدیث: 3179) حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بیمار کی تیمارداری کرو اور جنازوں میں شرکت کرو، وہ تمہیں آخرت یاد دلائیں گے۔‘‘ (مسند أحمد: 32/3) حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’پیدل چلنے والا جنازے کے پیچھے، آگے، دائیں بائیں اور اس کے قریب ہو کر چل سکتا ہے۔‘‘ (سنن أبي داود، الجنائز، حدیث: 3180)