باب: اس بارے میں کہ عالموں کی بات خاموشی سے سننا ضروری ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Knowledge
(Chapter: To be quiet (and listen) to religious learned men)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
124.
حضرت جریر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ان سے فرمایا: ’’لوگوں کو خاموش کراؤ۔‘‘ اس کے بعد آپ نے فرمایا: ’’اے لوگو! میرے بعد ایک دوسرے کی گردنیں مار کے، پھر کافر نہ بن جانا۔‘‘
تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ حصول علم کی صورت اورحفظ حدیث کے طریقے سے آگاہ فرماتے ہیں کہ جب استاد احادیث بیان کرے تو پوری توجہ اور انہماک سے سننا چاہیے تاکہ کوئی بات رہ نہ جائے، نیز یہ بھی بتانا چاہتے ہیں کہ طلباء کے لیے اساتذہ کی توقیر و تعظیم انتہائی ضروری ہے۔ اسی طرح دیگر علماء کی باتیں بھی پورے اطمینان وسکون سے اور ہمہ تن گوش ہوکر سنی جائیں کیونکہ یہ حضرات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ورثاء آپ کی سنتوں کے محافظ اور آپ کی لائی ہوئی شریعت کے امین ہیں۔ اگرچہ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے لوگوں کو خاموش کرانے کا ذکر ہے تاہم امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان قائم کر کے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ حدیث میں مذکورہ واقعہ گو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق ہے، تاہم اس کا حکم عام ہے۔ احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عالم دین کو لوگوں کی خاموشی کا انتظار کرنا چاہیے، اگرجلدی یاضروری کام ہو تو انھیں خاموش بھی کرایا جاسکتا ہے۔ بہرحال عوام الناس کے لیے ضروری ہے کہ وہ علماء کی باتوں کو پوری توجہ سے سنیں اورانھیں یاد بھی رکھیں۔ اور یہ اس صورت میں ممکن ہے جب سننے والا توجہ سے سنے اور اسے سمجھے۔ اگر سنتے وقت بے پروائی سے کام لیا تو اسے یاد کیسے کیا جا سکتا ہے۔ امام ثوری رحمۃ اللہ علیہ علم کے تقاضوں کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: علم کے لیے پہلے توجہ، پھر خاموشی، اس کے بعد یاد کرنا اور اس پر عمل کرنا، پھر اسے دوسروں تک پہنچانا ہے۔ (فتح الباري: 287/1) 2۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے بعد تم پھر کافر مت ہوجانا، محدثین نے اس کے دومفہوم بیان کیے ہیں: (الف)۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ مل جل کر بھائیوں کی طرح رہیں۔ اگر مسلمان باہم دست وگریباں ہوں گے اور ایک دوسرے کو قتل کریں گے تو گویا انھوں نے کافروں کا شعار اپنا لیا ہے کیونکہ یہ کافروں کا کام ہے کہ وہ خواہ مخواہ مسلمانوں کو قتل کرتے ہیں۔ اس صورت میں کفر اپنے حقیقی معنی میں نہیں ہوگا بلکہ کبیرہ گناہ کے معنی میں ہوگا۔ (ج)۔ ایک معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ میرے بعد ایسا نہ ہو کہ تم اپنی راہ تبدیل کرلو اور مرتد ہو کر ایک دوسرے کے قتل کو حلال سمجھنے لگو۔ اس صورت میں کفر اپنے حقیقی معنوں میں ہوگا کیونکہ مسلمانوں کے قتل کو اپنے لیے حلال سمجھنے والا بلاشبہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ افسوس صد افسوس کہ جن مسلمانوں کو اخوت وہمدردی کا سبق دیا گیا تھا، وہ آج افتراق و انتشار کا شکار ہیں اور آپس میں اس طرح لڑتے ہیں گویا ان سب کا دین جدا جدا ہے۔
من از بیگانگاں ہر گز ننالم کہ بامن آنچہ کردآں آشنا کرد
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
123
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
121
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
121
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
121
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علم کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ علم، جہالت کی ضد ہے اور جہالت تاریکی کا نام جس میں واضح چیزیں بھی چھپی رہتی ہیں اور جب علم کی روشنی نمودار ہوتی ہے تو چھپی چیزیں بھی واضح ہونے لگتی ہیں۔ انھوں نے علم کی تعریف سے تعرض نہیں کیا، اس لیے کہ علم کو تعریف کی ضرورت نہیں۔عطرآں باشد کہ خود بیویدانہ کہ عطاربگوید نیز اشیاء کی حقیقت و ماہیت بیان کرنا اس کتاب کا موضوع نہیں ہے۔ایمانیات کے بعد کتاب العلم کا افتتاح کیا کیونکہ ایمان کے بعد دوسرا درجہ علم کا ہے۔اس کا ارشاد کلام الٰہی سے بھی ملتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:(يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ)( المجادلۃ 58۔11۔)"اللہ تعالیٰ تم میں سے اہل ایمان اور اہل علم کے درجات بلند کردے گا۔"اس آیت کریمہ میں پہلے اہل ایمان اور پھر اہل علم کا تذکرہ ہے چونکہ ایمان کی پابندی ہر مکلف پر سب سے پہلے عائد ہوتی ہے نیز ایمان سب سے افضل و اعلیٰ اور ہر علمی اور عملی خیر کا اساسی پتھر ہے، اس لیے علم سے پہلے ایمان کا تذکرہ ضروری تھا۔ ایمانیات کے بعد کتاب العلم لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو چیزیں ایمان میں مطلوب ہیں اور جن پر عمل کرنے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر ایمان اور علم میں ایک گہرا رشتہ بھی ہے وہ یہ کہ علم کے بغیر ایمان میں روشنی اور بالیدگی پیدا نہیں ہوتی اور نہ ایمان کے بغیر علوم و معاررف ہی لائق اعتنا ہیں۔کتاب العلم کو دیگر ابواب سے پہلے بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر ابواب کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے اور اللہ کے ہاں اس عمل کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوگا جوعلی وجہ البصیرت کیا جائے گا۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دنیاوی علوم میں مہارت پیدا کرنا کوئی پسندیدہ اور کار آمد مشغلہ نہیں کیونکہ ان کا فائدہ عارضی اور چند روز ہے۔ ان کے نزدیک اصل علم قرآن و حدیث کا علم ہے۔ پھر ان دونوں کے متعلق اللہ کی عطا کردہ فہم و فراست ہے کیونکہ ایسے معارف کا نفع مستقل اور پائیدار ہے پھر اگر اس علم کو اخلاص و عمل سے آراستہ کر لیا جائے تو آخرت میں ذریعہ نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اکثریت کے متعلق بایں الفاظ شکوہ کیا ہے:(يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ)"وہ تو دنیا وی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں۔اور اخروی معاملات سے تو بالکل ہی بے خبر ہیں۔"( الروم :30۔7۔)اس بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب العلم میں حقیقی علم کی اہمیت و حیثیت ،افادیت ،علم حدیث، اس کے آداب وفضائل ، اس کی حدود و شرائط ، آداب تحمل حدیث ،آداب تحدیث ، صیغ ادا، رحلات علمیہ، کتابت حدیث،آداب طالب ، آداب شیخ ، فتوی ، آداب فتوی اور ان کے علاوہ بے شمار علمی حقائق و معارف کو بیان کیا ہے جن کی مکمل تفصیل اس تمہیدی گفتگو میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ آئندہ صفحات میں موقع و محل کے مطابق ایسے علمی جواہرات کی وضاحت کی جائے گی۔ قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ ان تمہیدی گزارشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب العلم کا مطالعہ کریں۔
حضرت جریر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ان سے فرمایا: ’’لوگوں کو خاموش کراؤ۔‘‘ اس کے بعد آپ نے فرمایا: ’’اے لوگو! میرے بعد ایک دوسرے کی گردنیں مار کے، پھر کافر نہ بن جانا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ حصول علم کی صورت اورحفظ حدیث کے طریقے سے آگاہ فرماتے ہیں کہ جب استاد احادیث بیان کرے تو پوری توجہ اور انہماک سے سننا چاہیے تاکہ کوئی بات رہ نہ جائے، نیز یہ بھی بتانا چاہتے ہیں کہ طلباء کے لیے اساتذہ کی توقیر و تعظیم انتہائی ضروری ہے۔ اسی طرح دیگر علماء کی باتیں بھی پورے اطمینان وسکون سے اور ہمہ تن گوش ہوکر سنی جائیں کیونکہ یہ حضرات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ورثاء آپ کی سنتوں کے محافظ اور آپ کی لائی ہوئی شریعت کے امین ہیں۔ اگرچہ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے لوگوں کو خاموش کرانے کا ذکر ہے تاہم امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان قائم کر کے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ حدیث میں مذکورہ واقعہ گو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق ہے، تاہم اس کا حکم عام ہے۔ احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عالم دین کو لوگوں کی خاموشی کا انتظار کرنا چاہیے، اگرجلدی یاضروری کام ہو تو انھیں خاموش بھی کرایا جاسکتا ہے۔ بہرحال عوام الناس کے لیے ضروری ہے کہ وہ علماء کی باتوں کو پوری توجہ سے سنیں اورانھیں یاد بھی رکھیں۔ اور یہ اس صورت میں ممکن ہے جب سننے والا توجہ سے سنے اور اسے سمجھے۔ اگر سنتے وقت بے پروائی سے کام لیا تو اسے یاد کیسے کیا جا سکتا ہے۔ امام ثوری رحمۃ اللہ علیہ علم کے تقاضوں کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: علم کے لیے پہلے توجہ، پھر خاموشی، اس کے بعد یاد کرنا اور اس پر عمل کرنا، پھر اسے دوسروں تک پہنچانا ہے۔ (فتح الباري: 287/1) 2۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے بعد تم پھر کافر مت ہوجانا، محدثین نے اس کے دومفہوم بیان کیے ہیں: (الف)۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ مل جل کر بھائیوں کی طرح رہیں۔ اگر مسلمان باہم دست وگریباں ہوں گے اور ایک دوسرے کو قتل کریں گے تو گویا انھوں نے کافروں کا شعار اپنا لیا ہے کیونکہ یہ کافروں کا کام ہے کہ وہ خواہ مخواہ مسلمانوں کو قتل کرتے ہیں۔ اس صورت میں کفر اپنے حقیقی معنی میں نہیں ہوگا بلکہ کبیرہ گناہ کے معنی میں ہوگا۔ (ج)۔ ایک معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ میرے بعد ایسا نہ ہو کہ تم اپنی راہ تبدیل کرلو اور مرتد ہو کر ایک دوسرے کے قتل کو حلال سمجھنے لگو۔ اس صورت میں کفر اپنے حقیقی معنوں میں ہوگا کیونکہ مسلمانوں کے قتل کو اپنے لیے حلال سمجھنے والا بلاشبہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ افسوس صد افسوس کہ جن مسلمانوں کو اخوت وہمدردی کا سبق دیا گیا تھا، وہ آج افتراق و انتشار کا شکار ہیں اور آپس میں اس طرح لڑتے ہیں گویا ان سب کا دین جدا جدا ہے۔
من از بیگانگاں ہر گز ننالم کہ بامن آنچہ کردآں آشنا کرد
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے حجاج نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا مجھے علی بن مدرک نے ابوزرعہ سے خبر دی، وہ جریر ؓ سے نقل کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ان سے حجۃ الوداع میں فرمایا کہ لوگوں کو بالکل خاموش کر دو (تا کہ وہ خوب سن لیں) پھر فرمایا، لوگو! میرے بعد پھر کافر مت بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو۔
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نصیحتیں فرمانے سے پہلے جریر کوحکم دیا کہ لوگوں کو توجہ سے بات سننے کے لیے خاموش کریں، باب کا یہی منشا ہے کہ شاگرد کا فرض ہے استاد کی تقریر خاموشی اور توجہ کے ساتھ سنے۔ حضرت جریر ؓ10ھ میں حجۃ الوداع سے پہلے مسلمان ہوچکے تھے، کافر بن جانے سے مراد کافروں کے سے فعل کرنا مراد ہے۔ کیونکہ ناحق خون ریزی مسلمان کا شیوہ نہیں۔ مگر صد افسوس کہ تھوڑے ہی دنوں بعد امت میں فتنے فساد شروع ہو گئے جو آج تک جاری ہیں، امت میں سے سب سے بڑا فتنہ ائمہ کی تقلید محض کے نام پر افتراق و انتشار پیدا کرنا ہے۔ مقلدین زبان سے چاروں اماموں کو برحق کہتے ہیں۔ مگر پھر بھی آپس میں اس طرح لڑتے جھگڑتے ہیں گویا ان سب کا دین جداجدا ہے۔ تقلید جامد سے بچنے والوں کو غیرمقلد لامذہب کے ناموں سے یاد کرتے ہیں اور ان کی تحقیر و توہین کرنا کارثواب جانتے ہیں۔ و إلی اللہ المشتکیٰ۔ اقبال مرحوم نے سچ فرمایاہے
اگر تقلید بودے شیوۂ خوب پیغمبر ہم رہ اجداد نہ رفتے
یعنی تقلید کا شیوہ اگراچھا ہوتا تو پیغمبر اپنے باپ دادا کی راہ پر چلتے مگر آپ نے اس روش کی مذمت فرمائی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jarir: The Prophet (ﷺ) said to me during Hajjat-al-Wida': Let the people keep quiet and listen. Then he said (addressing the people), "Do not (become infidels) revert to disbelief after me by striking the necks (cutting the throats) of one another (killing each other)."