تشریح:
1۔حدیث میں ہے کہ بیت اللہ کا طواف، صفا مروہ کی سعی اور رمی جمار ذکر اللہ کی اقامت کے لیے ہیں۔(سنن ابی داؤد، المناسك، حدیث: 1888)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ اس حدیث کے پیش نظر رمی جمار کے وقت ایک آدمی اللہ کے ذکر میں مصروف ہے ایسی حالت میں سوال و جواب کی اجازت ہے یا نہیں؟ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مذکورہ حدیث سے اس کا جواز ثابت فرمایا ہے دراصل ذکر کی دو قسمیں ہیں: ایک یہ کہ اس میں مشغولیت کے وقت دوسری کسی چیز کی طرف توجہ دینا جائز نہیں جیسا کہ نماز وغیرہ اور دوسری قسم ایسی ہے کہ اس میں مصروفیت کے دوران میں نہ گفتگو کی ممانعت ہے اور نہ دوسری طرف توجہ دینا ہی ناجائز ہے جیسے رمی جمار اور طواف وغیرہ۔ اس مقام پر حج کے مسائل بیان کرنا مقصود نہیں کیونکہ وہ کتاب الحج میں بیان ہوں گے۔ اسے کتاب العلم میں اس غرض سے بیان کیا گیا ہے تاکہ علم کا مقام اور مرتبہ واضح کیا جائے۔یعنی علم کی اتنی اہمیت ہے کہ اللہ کا ذکر قطع کرکے علمی سوالات کا جواب دیا جا سکتا ہے، لیکن حدیث میں راوی کا بیان بایں الفاظ ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جمرے کے پاس دیکھا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت رمی جمار کر رہے تھے اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جمرے کے پاس تشریف فرماہونا دو صورتوں میں ممکن ہے:یا تو آپ رمی فرما رہے ہوں گے یا رمی کے بعد دعا میں مشغول ہوں گےاور دعا بھی عبادت ہے، اس لیے آپ سے سوال کسی بھی صورت میں کیا گیا ہو، دوران عبادت میں کیا گیا ہے اور آپ نے سوال کرنے والوں سے یہ نہیں فرمایا کہ میں اس وقت عبادت میں مصروف ہوں بلکہ آپ نے ان کے جوابات دیے ہیں۔ لہٰذا یہ ثابت ہوا کہ جن عبادات میں گفتگو کی اجازت ہے اگر اس دوران میں عالم سے سوال کیا جائے تو اسے جواب دینے کی اجازت ہے۔2۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے علم میں کس قدر گیرائی اور گہرائی ہے اور ثقاہت و فقاہت میں آپ کا مقام کس قدر اونچا ہے! لیکن حسد و بغض کا ستیاناس ہو، یہ انسان کو بالکل اندھا کردیتا ہے چنانچہ امین احسن اصلاحی نے تدبر حدیث کی آڑ میں اپنے خبث باطن کا اظہار بایں الفاظ کیا ہے۔’’یہ باب ایسا ہے کہ جس پر ہمارے محدثین حضرات نے بھی سر پیٹا ہے کہ یہ باب بالکل فضول باندھا گیا ہے۔‘‘( تدبر حدیث: 1/223) البتہ علامہ اسماعیلی نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ پر اعتراض کیا ہے کہ اگر اتنی اتنی بات پر عنوان قائم کرنا ہے تو پھر اس حدیث پر تین عنوان ہونے چاہیے تھے۔1۔باب السوال عندرمی الجمار۔2۔باب السوال والمسئول علی الراحلة 3۔باب السوال یوم النحر- اس اعتراض کا جواب حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے دیا ہے کہ ان تین تراجم میں سے ایک عنوان تو پہلے آچکا ہے یعنی سواری وغیرہ پر سوار رہ کرفتوی دینا۔ (باب رقم23)وہاں بھی یہی حدیث پیش فرمائی تھی۔ پھر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مکان سے صرف نظر کرتے ہوئے زمان ووقت کا لحاظ رکھا اور عنوان قائم کردیا۔ اس خصوصیت کی وجہ یہ ہے کہ عیدکا دن ہے۔ اس مناسبت سے کسی شخص کے دل میں یہ خیال پیدا ہو سکتا ہے کہ شاید عید کے دن لہو ولهب کی وجہ سے علمی سوال کرنے کی اجازت نہ ہو۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ اس دن بھی سوالات و جوابات کا سلسلہ قائم کیا جا سکتا۔(فتح الباری: 1/297)ہماری وضاحت کے بعد بھی اگر کسی نے سرپیٹنا ہے تو اپنا پیٹے ، اپنی عقل و دانش کا ماتم کرے، محدثین کرام پر الزام تراشی یا تہمت زنی کی کیا ضرورت ہے۔