تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد پیش کردہ آیت کا شان نزول بیان کرنا نہیں، کیونکہ وہ اس حیثیت سے کتاب التفسیر میں اسے بیان کریں گے یہاں کتاب العلم میں غالباً اس لیے لائے ہیں کہ ہمیں جو علم ملا ہے اس پر قطعاً مغرور نہیں ہونا چاہے کیونکہ ہماری مجہولات، معلومات سے کہیں زیادہ ہیں۔ اس لیے سائل کو چاہیے کہ اسے جب کوئی علمی ضرورت درپیش ہو تو سوال کرنے میں کوئی حجاب نہ ہو اور نہ عالم ہی کو اس کا جواب دینے میں کوئی تکلف مانع ہو نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ غیب کا علم صرف اللہ کے پاس ہے۔ اس کے سوا کوئی نبی، فرشتہ یا ولی عالم الغیب نہیں۔
2۔ قران مجید میں لفظ روح کئی معنوں میں استعمال ہوا ہے مثلاً: (1)۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام کے لیے۔ ﴿نـزلَ بِهِ الرُّوحُ الأمِينُ﴾ (الشعراء26: 193) (2)۔ قران مجید کے لیے۔ ﴿وَكَذَلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِنْ أَمْرِنَا﴾ (الشوری42: 52)(3)۔ روح انسانی کے لیے۔ ﴿فَنَفَخْنَا فِيهَا مِن رُّوحِنَا﴾ (تحریم 66: 12) متعلقہ آیت میں روح سے مراد روح انسانی ہے جو پورے بدن میں پھیلی ہوئی ہے اور بدن کی حرکت اس روح کی مرہون منت ہے۔ اس کی حقیقت اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا لہٰذا ہمیں بھی اس کے متعلق لب کشائی سے اجتناب کرنا چاہیے۔
3۔ اس روایت کے آخر میں امام اعمش کی ایک قرآءت کا ذکر ہے کہ انھوں نے اسے غائب کے صیغے سے پڑھا ہے امام اعمش کے ایک شاگرد عبدالواحد اس طرح نقل کرتے ہیں، جبکہ متواتر قراءت مخاطب کے صیغے کے ساتھ ہے۔ حضرت اعمش کے باقی شاگردوں نے جمہور کی قراءت کے مطابق ہی نقل کیا ہے۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4721، و التوحید، حدیث: 7456) امام اعمش کی مذکورہ قرآءت شاذ ہے۔ امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے قرآءت کی چند اقسام ذکرکی ہیں۔ متواتر، مشہور، آحاد، شاذ، موضوع اور مدرج وغیرہ انھوں نے قرآءت شاذ کے سلسلے میں امام اعمش اور یحییٰ بن وثاب کا حوالہ بھی دیا ۔(الإتقان: 75/2-77)
4۔اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آیت کی شان نزول یہود کا سوال ہے جبکہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار قریش کے سوال کرنے پر یہ آیت نازل ہوئی۔ جو حضرات علوم قرآن سے شغف رکھتے ہیں انھوں نے اسباب نزول کے متعلق بہت نادر اور قیمتی مباحث نقل کیے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے: (1)۔ سبب نزول کے متعلق اگر مختلف روایات ہیں تو صحیح روایت کا اعتبار ہو گا۔ (2)۔ اگرمتعدد صحیح روایات منقول ہیں تو وجوہ ترجیح کی بنیاد پر کسی ایک کو راجح قراردیا جائے گا۔ (3)۔ اگر صحت اور سبب ترجیح میں مساوی ہوں تو وہاں انھیں جمع کرنے کی کوئی صورت پیدا کی جائے گی۔
4۔ اگر جمع ممکن نہ ہو تو تعدد نزول پر محمول کیا جائے گا۔ ( مباحث فی علوم القرآن ص:90،91) مذکورہ روایت میں اس آیت کی شان نزول یہود کا سوال بیان ہوا ہے اور یہی راجح ہے، کیونکہ صحیح بخاری کا مقام جامع ترمذی کے مقابلے میں بلند و بالا ہے لیکن اصحاب "تدبر" کے ہاں قرآن فہمی کے لیے احادیث کی کوئی اہمیت نہیں اور نہ ان کے نزدیک احادیث وحی الٰہی ہی ہیں، بالخصوص صحیح بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی احادیث کے ساتھ مذاق و استخفاف ان کا محبوب مشغلہ ہے، چنانچہ ان حضرات نے "تدبرحدیث" کی آڑ میں پہلے تو شان نزول کی اہمیت کو کم کیا پھر سورہ بنی اسرائیل کے مکی یا مدنی ہونے کا شاخسانہ کھڑا کیا بعد ازیں امام اعمش کی قرآءت کا مذاق اڑایا آخر میں اس روایت پر بے سروپا ہونے کی پھبتی کسی اور بایں الفاظ اس حدیث کے متعلق زہراگلا ’’البتہ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ ایسی بے سروپا روایت بخاری نے اپنی صحیح میں کیوں لے لی۔‘‘ (تدبر حدیث:225/1)