تشریح:
(1) یہ حدیث انتہائی مختصر ہے، آگے تفصیل کے ساتھ آ رہی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا قصد یہی تھا کہ اس پر دو مصیبتیں جمع نہ ہوں: ایک تو اس کا بچہ فوت ہو گیا ہے اور دوسری مصیبت یہ کہ بے صبری سے اس کا ثواب بھی جاتا رہے گا۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کوئی بھی مرد کسی بھی عورت کو غلط کام سے روک سکتا ہے جس طرح رسول اللہ ﷺ نے اس عورت کو قبر پر جزع فزع سے منع کیا اور صبر کی تلقین فرمائی۔
(2) امام بخاری ؒ کے عنوان سے پتہ چلتا ہے کہ ایسا کرنا رسول اللہ ﷺ کی خصوصیت نہ تھی۔ امر بالعمروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ کوئی بھی آدمی ادا کر سکتا ہے، نیز وعظ و نصیحت کے لیے عورتوں سے مخاطب ہونا جائز ہے، خواہ وہ بوڑھی ہوں یا جوان۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے پہلی احادیث میں عورتوں کو ثواب کی رغبت کے لیے مخاطب کیا تھا کہ مصیبت پر صبر کرنا چاہیے اور اس حدیث میں برے انجام سے آگاہ کرنے کے لیے خطاب کیا ہے کہ بے صبری سے تقویٰ جاتا رہتا ہے۔ (فتح الباري: 161/3)