تشریح:
(1) فوت ہونے والی رسول اللہ ﷺ کی صاجزادی حضرت سیدہ زینب ؓ تھیں جو حضرت ابو العاص ؓ کی بیوی اور سیدہ امامہ بنت عاص ؓ کی والدہ ماجدہ تھیں۔ ان کا انتقال آٹھ ہجری میں ہوا تھا۔ سیدہ زینب ؓ کو غسل دینے والی خواتین میں حضرت ام عطیہ کے علاوہ حضرت اسماء بنت عمیس، حضرت صفیہ بنت عبدالمطلب، حضرت یعلی بنت قانف اور حضرت ام سلیم ؓ بھی شامل تھیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عورت کو غسل دینے کے لیے شوہر کی نسبت عورتیں زیادہ مناسب ہیں، اگرچہ بیوی خاوند کا ایک دوسرے کو غسل دینا شرعا جائز ہے۔
(2) میت کو غسل دینا ضروری ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اس شخص کے متعلق حکم دیا تھا جو حالتِ احرام میں اپنی سواری سے گر کر جاں بحق ہو گیا تھا کہ اسے پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو۔ (صحیح البخاري، جزاء الصید، حدیث: 1849) اسی طرح مذکورہ حدیث میں بھی رسول اللہ ﷺ نے حضرت ام عطیہ ؓ کو حکم دیا تھا کہ صاجزادی کو تین یا پانچ یا اس سے بھی زیادہ مرتبہ غسل دو۔ ان احادیث سے غسل میت کے وجوب کا پتہ چلتا ہے۔ غسل دینے کے لیے کسی ایسے شخص کا انتخاب کیا جائے جو قریبی رشتے دار، غسل کے طریقے کو جاننے والا، امانت دار اور تقویٰ شعار ہو۔ بیری کے پتے استعمال کرنے کا حکم محض نظافت و صفائی کے لیے ہے، اگر اس کے قائم مقام کوئی چیز، مثلا: صابن وغیرہ دستیاب ہو تو وہ بھی درست ہے۔ آخری مرتبہ غسل دیتے وقت پانی میں کافور وغیرہ ملا لیا جائے۔ اس میں یہ حکمت ہے کہ میت خوشبودار ہو جائے، کیونکہ اس وقت فرشتے حاضر ہوتے ہیں، نیز کافور کی خصوصیت ہے کہ اس کے استعمال کرنے سے میت کا جسم جلد خراب نہیں ہوتا۔ اس کا یہ بھی فائدہ ہے کہ اسے لگانے کے بعد کوئی بھی موذی جانور میت کے قریب نہیں آتا۔ والله أعلم۔
(3) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سب سے آخر میں اپنی ازار سیدہ زینب ؓ کے لیے مرحمت فرمائی کہ آپ کے جسم مبارک سے اتصال کا زمانہ قریب سے قریب تر ہو اور نبوی جسم مبارک سے الگ ہو کر صاجزادی مرحومہ کے جسم سے اتصال تک کچھ بھی فاصلہ نہ ہو، نیز یہ آثار صالحین سے تبرک کے لیے ایک بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتا ہے۔ (فتح الباري: 166/3) ہمارے نزدیک آثار صالحین سے تبرک کا مسئلہ محل نظر ہے، کیونکہ ایسا کرنا رسول اللہ ﷺ کے آثار سے تو ہو سکتا ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا جسم اطہر بابرکت اور اس سے لگنے والا کپڑا بھی متبرک ہوتا ہے۔ اس پر قیاس کرتے ہوئے دوسرے صالحین کے آثار سے برکت حاصل کرنا دو وجہ سے ناجائز ہے: ٭ صحابہ کرام ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے علاوہ کسی دوسرے بزرگ سے اس قسم کا تبرک نہیں لیا۔ ٭ دوسروں سے تبرکات کا سلسلہ شرک و بدعت کا بہت بڑا ذریعہ ہے، لہٰذا تبرک وغیرہ کا سلسلہ صرف رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی اور آپ سے متعلقہ اشیاء تک محدود رہنا چاہیے۔ والله أعلم۔