Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: The order of following the funeral procession)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1253.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے،انھوں نے کہا:میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئےسنا:’’مسلمان کے مسلمان پر پانچ حق ہیں:سلام کاجواب دینا، مریض کی عیادت کرنا، جنازے میں شریک ہونا، دعوت کا قبول کرنا اور چھینکنے والے کو دعا دینا۔‘‘ عبدالرزاق نے عمرو بن ابی سلمہ کی متابعت کی اور کہا کہ ہمیں معمر نے خبر دی ہے۔ نیز اس حدیث کو سلامہ بن روح نےعقیل سےبیان کیا ہے۔
تشریح:
(1) صحیح مسلم کی ایک روایت میں چھ حقوق بیان ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب کوئی دوسرے سے مشورہ طلب کرے تو اسے اچھا مشورہ دے۔ (صحیح مسلم، السلام، حدیث: 5851 (2162) جبکہ صحیح بات یہ ہے کہ ابن بطال نے یہاں حق سے مراد حقِ احترام اور حقِ صحبت لیا۔ (فتح الباري: 146/3) حق بمعنی واجب ہے، جیسا کہ صحیح مسلم میں اس کی صراحت ہے۔ اسے وجوب کفایہ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ ان حقوق میں تمام مسلمان برابر کے شریک ہیں، خواہ وہ نیک ہوں یا بد، البتہ نیک مسلمانوں سے خوشی کا اظہار کرنا چاہیے اور ان سے مصافحہ وغیرہ بھی مستحسن اقدام ہے، جبکہ فاسق اور فاجر سے ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ رد السلام کے متعلق کتاب الاستئذان، عیادۃ المریض کے متعلق کتاب المرضیٰ، إجابة الداعي کے متعلق کتاب الولیمة اور تشمیت العاطس کے متعلق کتاب الأدب میں تفصیل بیان ہو گی۔ اس مقام پر صرف اتباع الجنائز کی مشروعیت کو بیان کرنا مقصود ہے۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمان معروف ہو یا غیر معروف اس کے جنازے میں شریک ہونا ضروری ہے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ جس نے جنازے کے چاروں اطراف کو کندھا دیا اس نے اپنا فرض ادا کر دیا۔ (المصنف لعبدالرزاق: 512/3) ہمارے علم کے مطابق کسی صحیح حدیث سے جنازے کو کندھا دینے کا وجوب ثابت نہیں ہوتا، لہذا یہ بھی ضروری نہیں کہ چاروں اطراف کو کندھا دیا جائے، البتہ اختلافی صورت میں اسے غیر ضروری قرار دینے میں چنداں حرج نہیں۔ عبدالرزاق کی متابعت کو امام مسلم ؒ نے متصل سند سے بیان کیا ہے، نیز سلامہ کی روایت کو زہریات میں بیان کیا گیا ہے۔ (صحیح مسلم، السلام، حدیث: 5650 (2160)، وفتح الباري: 146/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1210
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1240
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1240
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1240
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے،انھوں نے کہا:میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئےسنا:’’مسلمان کے مسلمان پر پانچ حق ہیں:سلام کاجواب دینا، مریض کی عیادت کرنا، جنازے میں شریک ہونا، دعوت کا قبول کرنا اور چھینکنے والے کو دعا دینا۔‘‘ عبدالرزاق نے عمرو بن ابی سلمہ کی متابعت کی اور کہا کہ ہمیں معمر نے خبر دی ہے۔ نیز اس حدیث کو سلامہ بن روح نےعقیل سےبیان کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) صحیح مسلم کی ایک روایت میں چھ حقوق بیان ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب کوئی دوسرے سے مشورہ طلب کرے تو اسے اچھا مشورہ دے۔ (صحیح مسلم، السلام، حدیث: 5851 (2162) جبکہ صحیح بات یہ ہے کہ ابن بطال نے یہاں حق سے مراد حقِ احترام اور حقِ صحبت لیا۔ (فتح الباري: 146/3) حق بمعنی واجب ہے، جیسا کہ صحیح مسلم میں اس کی صراحت ہے۔ اسے وجوب کفایہ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ ان حقوق میں تمام مسلمان برابر کے شریک ہیں، خواہ وہ نیک ہوں یا بد، البتہ نیک مسلمانوں سے خوشی کا اظہار کرنا چاہیے اور ان سے مصافحہ وغیرہ بھی مستحسن اقدام ہے، جبکہ فاسق اور فاجر سے ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ رد السلام کے متعلق کتاب الاستئذان، عیادۃ المریض کے متعلق کتاب المرضیٰ، إجابة الداعي کے متعلق کتاب الولیمة اور تشمیت العاطس کے متعلق کتاب الأدب میں تفصیل بیان ہو گی۔ اس مقام پر صرف اتباع الجنائز کی مشروعیت کو بیان کرنا مقصود ہے۔ (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمان معروف ہو یا غیر معروف اس کے جنازے میں شریک ہونا ضروری ہے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ جس نے جنازے کے چاروں اطراف کو کندھا دیا اس نے اپنا فرض ادا کر دیا۔ (المصنف لعبدالرزاق: 512/3) ہمارے علم کے مطابق کسی صحیح حدیث سے جنازے کو کندھا دینے کا وجوب ثابت نہیں ہوتا، لہذا یہ بھی ضروری نہیں کہ چاروں اطراف کو کندھا دیا جائے، البتہ اختلافی صورت میں اسے غیر ضروری قرار دینے میں چنداں حرج نہیں۔ عبدالرزاق کی متابعت کو امام مسلم ؒ نے متصل سند سے بیان کیا ہے، نیز سلامہ کی روایت کو زہریات میں بیان کیا گیا ہے۔ (صحیح مسلم، السلام، حدیث: 5650 (2160)، وفتح الباري: 146/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمدنے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عمرو بن ابی سلمہ نے بیان کیا، ان سے امام اوزاعی نے، انہوںنے کہا کہ مجھے ابن شہاب نے خبر دی، کہا کہ مجھے سعید بن مسیب نے خبر دی کہ ابو ہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ مسلمان کے مسلمان پر پانچ حق ہیں سلام کا جواب دینا، مریض کا مزاج معلوم کرنا، جنازے کے ساتھ چلنا، دعوت قبول کرنا، اور چھینک پر (اس کے الحمد للہ کے جواب میں) یرحمك اللہ کہنا۔ اس روایت کی متابعت عبد الرزاق نے کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے معمر نے خبر دی تھی۔ اور اس کی روایت سلامہ نے بھی عقیل سے کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمان کے جنازہ میں شرکت کرنا بھی حقوق مسلمین میں داخل ہے۔ حافظ نے کہا کہ عبدا لرزاق کی روایت کو امام مسلم نے نکالا ہے اور سلامہ کی روایت کو ذہلی نے زہریات میں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): I heard Allah's Apostle (ﷺ) saying, "The rights of a Muslim on the Muslims are to follow the funeral processions, to accept invitation and to reply the sneezer. (see Hadith No 331) ________