باب: میت کو جب کفن میں لپیٹا جا چکا ہو تو اس کے پاس جانا (جائز ہے)۔
)
Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: Visiting the deceased person after he has been put in his shroud)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1257.
حضرت جابر ؓ بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے ،انھوں نے فرمایا: میرے والد جب (غزوہ احد میں) شہید ہوئے تو میں بار بار ان کے چہرے سے پردہ ہٹاتا اور روتا تھا۔ لوگ مجھے اس سے منع کرتے تھے لیکن نبی کریم ﷺ مجھے منع نہیں فرماتے تھے۔ پھر میری پھوپھی حضرت فاطمہ ؓ بھی رونے لگی تو نبی کریم ﷺ نےفرمایا:’’تو رو یا نہ رو، فرشتے تو ان پر اپنے پروں کا سایہ کیے رہے حتیٰ کہ تم نے انھیں اٹھالیا۔‘‘ ابن جریج نے شعبہ کی متابعت کی ہے۔ انھوں نے کہا:مجھے محمد بن منکدر نے خبر دی کہ انھوں نے حضرت جابر ؓ سے سنا ہے۔
تشریح:
(1) حضرت جابر ؓ کے والد گرامی جنگ اُحد میں شہید ہو گئے تھے اور مشرکین نے ان کے ناک اور کان وغیرہ کاٹ کر ان کا مثلہ کر دیا تھا۔ حضرت جابر ؓ کا ان کے چہرے سے بار بار پردہ اٹھا کر رونا اس بنا پر تھا۔ (2) امام بخاری ؒ نے اس واقعے سے ثابت کیا ہے کہ میت کو کفن میں لپیٹ دینے کے بعد اسے دیکھا جا سکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ محض رونا، جس میں نوحہ نہ ہو، ممنوع نہیں۔ (3) رسول اللہ ﷺ نے اس کے متعلق جنتی ہونے کا فیصلہ فرمایا، کیونکہ فرشتوں کا اپنے پروں سے سایہ کرنا جنتی ہونے کی علامت ہے۔ نبی ﷺ کے فیصلے کی بنیاد وحی تھی۔ اپنے ظن و تخمین سے کسی کے متعلق جنتی ہونے کا حتمی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ ابن جریج کی متابعت کو امام مسلم ؒ نے اپنی صحیح میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔ ( فتح الباري: 150/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1213
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1244
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1244
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1244
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
حضرت جابر ؓ بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے ،انھوں نے فرمایا: میرے والد جب (غزوہ احد میں) شہید ہوئے تو میں بار بار ان کے چہرے سے پردہ ہٹاتا اور روتا تھا۔ لوگ مجھے اس سے منع کرتے تھے لیکن نبی کریم ﷺ مجھے منع نہیں فرماتے تھے۔ پھر میری پھوپھی حضرت فاطمہ ؓ بھی رونے لگی تو نبی کریم ﷺ نےفرمایا:’’تو رو یا نہ رو، فرشتے تو ان پر اپنے پروں کا سایہ کیے رہے حتیٰ کہ تم نے انھیں اٹھالیا۔‘‘ ابن جریج نے شعبہ کی متابعت کی ہے۔ انھوں نے کہا:مجھے محمد بن منکدر نے خبر دی کہ انھوں نے حضرت جابر ؓ سے سنا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت جابر ؓ کے والد گرامی جنگ اُحد میں شہید ہو گئے تھے اور مشرکین نے ان کے ناک اور کان وغیرہ کاٹ کر ان کا مثلہ کر دیا تھا۔ حضرت جابر ؓ کا ان کے چہرے سے بار بار پردہ اٹھا کر رونا اس بنا پر تھا۔ (2) امام بخاری ؒ نے اس واقعے سے ثابت کیا ہے کہ میت کو کفن میں لپیٹ دینے کے بعد اسے دیکھا جا سکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ محض رونا، جس میں نوحہ نہ ہو، ممنوع نہیں۔ (3) رسول اللہ ﷺ نے اس کے متعلق جنتی ہونے کا فیصلہ فرمایا، کیونکہ فرشتوں کا اپنے پروں سے سایہ کرنا جنتی ہونے کی علامت ہے۔ نبی ﷺ کے فیصلے کی بنیاد وحی تھی۔ اپنے ظن و تخمین سے کسی کے متعلق جنتی ہونے کا حتمی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ ابن جریج کی متابعت کو امام مسلم ؒ نے اپنی صحیح میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔ ( فتح الباري: 150/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے غندر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے محمد بن منکدر سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے جابر بن عبد اللہ ؓ سے سنا، انہوں نے کہا کہ جب میرے والد شہید کر دیئے گئے تو میں ان کے چہرے پر پڑا ہو کپڑا کھولتا اور روتا تھا۔ دوسرے لوگ تومجھے اس سے روکتے تھے، لیکن نبی کریم ﷺ کچھ نہیں کہہ رہے تھے۔ آخر میری چچی فاطمہ ؓ بھی رونے لگیں تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم لوگ روؤ یا چپ رہو۔ جب تک تم لوگ میت کو اٹھا تے نہیں ملائکہ تو برابر اس پر اپنے پروں کا سایہ کئے ہوئے ہیں۔ اس روایت کی متابعت شعبہ کے ساتھ ابن جریج نے کی، انہیں ابن منکدر نے خبر دی اور انہوں نے جابر ؓ سے سنا۔
حدیث حاشیہ:
منع کرنے کی وجہ یہ تھی کہ کافروں نے حضرت جابر ؓ کے والد کو قتل کر کے ان کے ناک کان بھی کاٹ ڈالے تھے۔ ایسی حالت میں صحابہ نے یہ مناسب جانا کہ جابر ؓ ان کو نہ دیکھیں تو بہتر ہوگا تاکہ ان کو مزید صدمہ نہ ہو۔ حدیث سے نکلا کہ مردے کو دیکھ سکتے ہیں۔ اسی لیے آنحضرت ﷺ نے جابر کو منع نہیں فرمایا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir bin 'Abdullah : When my father was martyred, I lifted the sheet from his face and wept and the people forbade me to do so but the Prophet (ﷺ) did not forbid me. Then my aunt Fatima began weeping and the Prophet (ﷺ) said, "It is all the same whether you weep or not. The angels were shading him continuously with their wings till you shifted him (from the field). " ________