تشریح:
1۔ابن سیرین کا موقف ہے کہ کفن قمیص کی طرح سلا ہوا ہونا چاہیے اور اس کے بٹن وغیرہ لگے ہوئے ہوں۔ امام بخاری ؒ اس موقف کی تردید فرماتے ہیں کہ کفن کے لیے اس قسم کی پابندی ناروا ہے۔ اس کے لیے تین سپاٹ چادریں بھی ہو سکتی ہیں اور دو چادریں بھی ہو سکتی ہیں اور دو چادریں اور ایک قمیص، خواہ سلی ہو یا اَن سلی وہ بھی کافی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے عبداللہ بن ابی منافق کو سلی ہوئی قمیص پہنائی جو کفن کے طور پر تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کو اپنی قمیص کیوں پہنائی؟ علامہ عینی ؒ نے اس کی تین وجوہات لکھی ہیں: ٭ رسول اللہ ﷺ نے رئیس المنافقین کے مومن بیٹے عبداللہ بن عبداللہ ؓ کے اکرام کے پیش نظر اسے اپنی قمیص پہنائی۔ ٭ اس کے قبیلے کی دل جوئی مقصود تھی، چنانچہ آپ کے اس خلق کریم کے باعث قبیلہ خزرج کے ایک ہزار اشخاص مسلمان ہو گئے۔ حضرت عباس ؓ جب غزوہ بدر میں قیدی بن کر آئے تو ان کے گلے میں قمیص نہ تھی۔ چونکہ وہ طویل القامت تھے، اس لیے عبداللہ بن ابی نے اپنی قمیص پہنائی کیونکہ وہ طویل القامت تھا۔ اس احسان کا بدلہ چکانے کے لیے آپ نے اسے قمیص پہنائی۔ (عمدة القاري: 75/6) والله أعلم۔
(2) سیاق حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر فاروق ؓ کے پیش نظر درج ذیل آیت کریمہ تھی: ﴿اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِن تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَن يَغْفِرَ اللَّـهُ لَهُمْ﴾ ’’آپ ان کے لیے بخشش مانگیں یا نہ مانگیں (فرق نہیں پڑے گا)۔ اگر آپ ان کے لیے ستر مرتبہ بھی دعائے مغفرت کریں تو بھی اللہ انہیں معاف نہیں کرے گا۔‘‘ (التوبة: 80/9) انہوں نے اس آیت سے استدلال کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو منافقین کی نماز جنازہ پڑھانے سے منع کر دیا ہے، لیکن رسول اللہ ﷺ کے موقف سے معلوم ہوا کہ اس آیت میں ممانعت کی صراحت نہیں بلکہ جنازہ پڑھنے اور نہ پڑھنے میں اختیار ہے، اسی لیے آپ نے فرمایا کہ مجھے دو باتوں کا اختیار دیا گیا ہے، اس لیے ستر سے زیادہ مرتبہ دعا کے بعد بخشش کی امید کی جا سکتی ہے۔ اس کے بعد صراحت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ ﴿وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰ أَحَدٍ مِّنْهُم مَّاتَ أَبَدًا﴾ ان کے لیے بخشش طلب کرنے سے منع فرما دیا جیسا کہ حدیث میں اس کی وضاحت موجود ہے۔ (فتح الباري: 178/3)
(3) امام بخاری ؒ کی پیش کردہ پہلی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عبداللہ بن ابی کے بیٹے حضرت عبداللہ ؓ کو اپنی قمیص عطا فرمائی تاکہ وہ اپنے باپ کو پہنا دے، لیکن حدیث جابر سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے قبر سے نکلوا کر خود قمیص پہنائی۔ ان دونوں احادیث میں کوئی تضاد نہیں۔ جہاں قمیص دینے کا ذکر ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ نبی ﷺ نے عبداللہ بن ابی کے بیٹے سے وعدہ کیا تھا کہ آپ اسے قمیص دیں گے اور اس وعدے پر دینے کا اطلاق مجازی طور پر ہے، کیونکہ آپ نے حتمی طور پر قمیص عطا فرمانی تھی، اس لیے تحقق وقوع کے اعتبار سے "أعطاہ" فرمایا اور عملا خود اسے پہنائی جس کا ذکر حدیث جابر میں ہے۔ (فتح الباري: 178/3)