باب: قمیص میں کفن دینا اور اس کا حاشیہ سلا ہوا ہو یا بغیر سلا ہوا ہو اور بغیر قمیص کے کفن دینا۔
)
Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: To shroud one in a shirt, stitched or unstitched)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1283.
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے،انھوں نے کہا:نبی کریم ﷺ عبداللہ بن ابی منافق کے دفن ہونے کے بعد تشریف لائے، اسے قبر سے باہر نکالا اور اس کے منہ میں اپنا لعاب ڈالا اور اسے اپنی قمیص پہنائی۔
تشریح:
1۔ابن سیرین کا موقف ہے کہ کفن قمیص کی طرح سلا ہوا ہونا چاہیے اور اس کے بٹن وغیرہ لگے ہوئے ہوں۔ امام بخاری ؒ اس موقف کی تردید فرماتے ہیں کہ کفن کے لیے اس قسم کی پابندی ناروا ہے۔ اس کے لیے تین سپاٹ چادریں بھی ہو سکتی ہیں اور دو چادریں بھی ہو سکتی ہیں اور دو چادریں اور ایک قمیص، خواہ سلی ہو یا اَن سلی وہ بھی کافی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے عبداللہ بن ابی منافق کو سلی ہوئی قمیص پہنائی جو کفن کے طور پر تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کو اپنی قمیص کیوں پہنائی؟ علامہ عینی ؒ نے اس کی تین وجوہات لکھی ہیں: ٭ رسول اللہ ﷺ نے رئیس المنافقین کے مومن بیٹے عبداللہ بن عبداللہ ؓ کے اکرام کے پیش نظر اسے اپنی قمیص پہنائی۔ ٭ اس کے قبیلے کی دل جوئی مقصود تھی، چنانچہ آپ کے اس خلق کریم کے باعث قبیلہ خزرج کے ایک ہزار اشخاص مسلمان ہو گئے۔ حضرت عباس ؓ جب غزوہ بدر میں قیدی بن کر آئے تو ان کے گلے میں قمیص نہ تھی۔ چونکہ وہ طویل القامت تھے، اس لیے عبداللہ بن ابی نے اپنی قمیص پہنائی کیونکہ وہ طویل القامت تھا۔ اس احسان کا بدلہ چکانے کے لیے آپ نے اسے قمیص پہنائی۔ (عمدة القاري: 75/6)والله أعلم۔ (2) سیاق حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر فاروق ؓ کے پیش نظر درج ذیل آیت کریمہ تھی: ﴿اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِن تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَن يَغْفِرَ اللَّـهُ لَهُمْ﴾’’آپ ان کے لیے بخشش مانگیں یا نہ مانگیں (فرق نہیں پڑے گا)۔ اگر آپ ان کے لیے ستر مرتبہ بھی دعائے مغفرت کریں تو بھی اللہ انہیں معاف نہیں کرے گا۔‘‘(التوبة: 80/9) انہوں نے اس آیت سے استدلال کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو منافقین کی نماز جنازہ پڑھانے سے منع کر دیا ہے، لیکن رسول اللہ ﷺ کے موقف سے معلوم ہوا کہ اس آیت میں ممانعت کی صراحت نہیں بلکہ جنازہ پڑھنے اور نہ پڑھنے میں اختیار ہے، اسی لیے آپ نے فرمایا کہ مجھے دو باتوں کا اختیار دیا گیا ہے، اس لیے ستر سے زیادہ مرتبہ دعا کے بعد بخشش کی امید کی جا سکتی ہے۔ اس کے بعد صراحت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ ﴿وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰ أَحَدٍ مِّنْهُم مَّاتَ أَبَدًا﴾ ان کے لیے بخشش طلب کرنے سے منع فرما دیا جیسا کہ حدیث میں اس کی وضاحت موجود ہے۔ (فتح الباري: 178/3) (3) امام بخاری ؒ کی پیش کردہ پہلی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عبداللہ بن ابی کے بیٹے حضرت عبداللہ ؓ کو اپنی قمیص عطا فرمائی تاکہ وہ اپنے باپ کو پہنا دے، لیکن حدیث جابر سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے قبر سے نکلوا کر خود قمیص پہنائی۔ ان دونوں احادیث میں کوئی تضاد نہیں۔ جہاں قمیص دینے کا ذکر ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ نبی ﷺ نے عبداللہ بن ابی کے بیٹے سے وعدہ کیا تھا کہ آپ اسے قمیص دیں گے اور اس وعدے پر دینے کا اطلاق مجازی طور پر ہے، کیونکہ آپ نے حتمی طور پر قمیص عطا فرمانی تھی، اس لیے تحقق وقوع کے اعتبار سے "أعطاہ" فرمایا اور عملا خود اسے پہنائی جس کا ذکر حدیث جابر میں ہے۔ (فتح الباري: 178/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1238
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1270
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1270
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1270
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
تمہید باب
اس عنوان میں دو باتیں ہیں: ٭ سلی ہوئی قمیص کو بطور کفن استعمال کرنا۔ ٭ اَن سلی قمیص کو کفن کے طور پر استعمال کرنا۔
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے،انھوں نے کہا:نبی کریم ﷺ عبداللہ بن ابی منافق کے دفن ہونے کے بعد تشریف لائے، اسے قبر سے باہر نکالا اور اس کے منہ میں اپنا لعاب ڈالا اور اسے اپنی قمیص پہنائی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ابن سیرین کا موقف ہے کہ کفن قمیص کی طرح سلا ہوا ہونا چاہیے اور اس کے بٹن وغیرہ لگے ہوئے ہوں۔ امام بخاری ؒ اس موقف کی تردید فرماتے ہیں کہ کفن کے لیے اس قسم کی پابندی ناروا ہے۔ اس کے لیے تین سپاٹ چادریں بھی ہو سکتی ہیں اور دو چادریں بھی ہو سکتی ہیں اور دو چادریں اور ایک قمیص، خواہ سلی ہو یا اَن سلی وہ بھی کافی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے عبداللہ بن ابی منافق کو سلی ہوئی قمیص پہنائی جو کفن کے طور پر تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کو اپنی قمیص کیوں پہنائی؟ علامہ عینی ؒ نے اس کی تین وجوہات لکھی ہیں: ٭ رسول اللہ ﷺ نے رئیس المنافقین کے مومن بیٹے عبداللہ بن عبداللہ ؓ کے اکرام کے پیش نظر اسے اپنی قمیص پہنائی۔ ٭ اس کے قبیلے کی دل جوئی مقصود تھی، چنانچہ آپ کے اس خلق کریم کے باعث قبیلہ خزرج کے ایک ہزار اشخاص مسلمان ہو گئے۔ حضرت عباس ؓ جب غزوہ بدر میں قیدی بن کر آئے تو ان کے گلے میں قمیص نہ تھی۔ چونکہ وہ طویل القامت تھے، اس لیے عبداللہ بن ابی نے اپنی قمیص پہنائی کیونکہ وہ طویل القامت تھا۔ اس احسان کا بدلہ چکانے کے لیے آپ نے اسے قمیص پہنائی۔ (عمدة القاري: 75/6)والله أعلم۔ (2) سیاق حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر فاروق ؓ کے پیش نظر درج ذیل آیت کریمہ تھی: ﴿اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِن تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَن يَغْفِرَ اللَّـهُ لَهُمْ﴾’’آپ ان کے لیے بخشش مانگیں یا نہ مانگیں (فرق نہیں پڑے گا)۔ اگر آپ ان کے لیے ستر مرتبہ بھی دعائے مغفرت کریں تو بھی اللہ انہیں معاف نہیں کرے گا۔‘‘(التوبة: 80/9) انہوں نے اس آیت سے استدلال کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو منافقین کی نماز جنازہ پڑھانے سے منع کر دیا ہے، لیکن رسول اللہ ﷺ کے موقف سے معلوم ہوا کہ اس آیت میں ممانعت کی صراحت نہیں بلکہ جنازہ پڑھنے اور نہ پڑھنے میں اختیار ہے، اسی لیے آپ نے فرمایا کہ مجھے دو باتوں کا اختیار دیا گیا ہے، اس لیے ستر سے زیادہ مرتبہ دعا کے بعد بخشش کی امید کی جا سکتی ہے۔ اس کے بعد صراحت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ ﴿وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰ أَحَدٍ مِّنْهُم مَّاتَ أَبَدًا﴾ ان کے لیے بخشش طلب کرنے سے منع فرما دیا جیسا کہ حدیث میں اس کی وضاحت موجود ہے۔ (فتح الباري: 178/3) (3) امام بخاری ؒ کی پیش کردہ پہلی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عبداللہ بن ابی کے بیٹے حضرت عبداللہ ؓ کو اپنی قمیص عطا فرمائی تاکہ وہ اپنے باپ کو پہنا دے، لیکن حدیث جابر سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے قبر سے نکلوا کر خود قمیص پہنائی۔ ان دونوں احادیث میں کوئی تضاد نہیں۔ جہاں قمیص دینے کا ذکر ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ نبی ﷺ نے عبداللہ بن ابی کے بیٹے سے وعدہ کیا تھا کہ آپ اسے قمیص دیں گے اور اس وعدے پر دینے کا اطلاق مجازی طور پر ہے، کیونکہ آپ نے حتمی طور پر قمیص عطا فرمانی تھی، اس لیے تحقق وقوع کے اعتبار سے "أعطاہ" فرمایا اور عملا خود اسے پہنائی جس کا ذکر حدیث جابر میں ہے۔ (فتح الباري: 178/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا، ان سے ابن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرونے، انہوں نے جابر ؓ سے سنا کہ نبی کریم ﷺ تشریف لائے تو عبد اللہ بن ابی کو دفن کیا جا رہا تھا۔ آپ ﷺ نے اسے قبر سے نکلوایا اور اپنا لعاب دہن اس کے منہ میں ڈالا اور اپنی قمیص پہنائی۔
حدیث حاشیہ:
عبد اللہ بن ابی مشہور منافق ہے جو جنگ احد کے موقع پر راستے میں سے کتنے ہی سادہ لوح مسلمانوں کو بہکا کر واپس لے آیا تھا اور اسی نے ایک موقع پر یہ بھی کہا تھا کہ ہم مدنی اور شریف لوگ ہیں اور یہ مہاجر مسلمان ذلیل پردیسی ہیں۔ ہمارا داؤ لگے گا تو ہم ان کو مدینہ سے نکال باہر کریں گے۔ اس کا بیٹا عبداللہ سچا مسلمان صحابی رسول تھا۔ آپ ﷺ نے ان کی دل شکنی گوارا نہیں کی اور ازراہ کرم اپنا کرتہ اس کے کفن کے لیے عنایت فرمایا۔ بعضوں نے کہا کہ جنگ بدر میں جب حضرت عباس ؓ قید ہو کر آئے تو وہ ننگے تھے۔ ان کا یہ حال زاردیکھ کر اسی عبداللہ بن ابی نے اپنا کرتا ان کو پہنادیا تھا۔ آنحضرت ﷺ نے اس کا بدلہ ادا کردیا کہ یہ احسان باقی نہ رہے۔ ان منافق لوگوں کے بارے میں پہلی آیت﴿اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِن تَسْتَغْفِرْ لَهُم﴾(التوبة: 80) نازل ہوئی تھی۔ اس آیت سے حضرت عمر ؓ سمجھے کہ ان پر نماز پڑھنا منع ہے۔ آنحضرت ﷺ نے ان کو سمجھایا کہ اس آیت میں مجھ کو اختیار دیا گیا ہے۔ تب حضرت عمر ؓ خاموش رہے۔ بعد میں آیت ﴿وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰ أَحَدٍ مِّنْهُم﴾ (التوبة:84) نازل ہوئی۔ جس میں آپ ﷺ کو اللہ نے منافقوں پر نماز جنازہ پڑھنے سے قطعاً روک دیا۔ پہلی اور دوسری روایتوں میں تطبیق یہ ہے کہ پہلے آپ ﷺ نے کرتہ دینے کا وعدہ فرمادیا تھا پھر عبداللہ کے عزیزوں نے آپ ﷺ کو تکلیف دینا مناسب نہ جانا اور عبداللہ کا جنازہ تیار کرکے قبر میں اتاردیا کہ آنحضرت ﷺ تشریف لے آئے اور آپ ﷺ نے وہ کیا جو روایت میں مذکور ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir (RA): The Prophet (ﷺ) came to (the grave of) 'Abdullah bin Ubai after his body was buried. The body was brought out and then the Prophet (ﷺ) put his saliva over the body and clothed it in his shirt.