تشریح:
(1) اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے زیارت قبور کو ثابت کیا ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اس عورت کو قبر کے پاس بیٹھنے سے نہیں روکا اور آپ کا کسی کام کو برقرار رکھنا قابل حجت ہے۔ علاوہ ازیں متعدد احادیث میں صراحت کے ساتھ قبروں کی زیارت کرنا ثابت ہے، چنانچہ صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کرتا تھا، اب ان کی زیارت کیا کرو۔‘‘ (صحیح مسلم، الجنائز، حدیث: 2260 (977)) ایک روایت میں ہے: ’’مجھے اپنی والدہ کی قبر کے متعلق زیارت کرنے کی اجازت دی گئی ہے، لہذا تم بھی قبروں کی زیارت کیا کرو کیونکہ یہ آخرت کی یاد دلاتی ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم، الجنائز، حدیث: 2259 (976)) مستدرک حاکم کی روایت میں ہے: ’’قبروں کی زیارت کرنے سے دل نرم اور آنکھیں اشکبار ہوتی ہیں، اس لیے قبرستان میں فحش یا باطل کلام نہ کرو۔‘‘ (المستدرك للحاکم: 376/1) ان احادیث سے مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے زیارت قبور کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ (فتح الباري: 190/3)
(2) خواتین کے لیے قبروں کی زیارت کے متعلق حسب ذیل دلائل ہیں: ٭ حضرت عائشہ ؓ ایک دن اپنے بھائی حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکر ؓ کی قبر کی زیارت کر کے واپس آئیں تو حضرت عبداللہ بن ابی ملیکہ نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ نے تو قبروں کی زیارت سے منع کیا ہے۔ انہوں نے جواب دیا: ہاں، لیکن پھر اس کی اجازت دے دی تھی۔ (السنن الکبریٰ للبیهقي: 78/4) ٭ حضرت عائشہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول! جب میں قبروں کی زیارت کروں تو کون سی دعا پڑھوں؟ آپ نے فرمایا: ’’تم یہ دعا پڑھو: (السلام علی أهل الديار) (صحیح مسلم، الجنائز، حدیث: 2256 (974)) لیکن خواتین کے لیے ٹولیوں کی شکل میں اور کثرت کے ساتھ زیارت کرنا جائز نہیں، کیونکہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بہت زیادہ قبروں کی زیارت کرنے والی خواتین پر لعنت فرمائی ہے۔ (سنن ابن ماجة، الجنائز، حدیث: 1576) جو عورتیں بناؤ سنگھار کر کے نوحہ کرنے کے لیے قبرستان جاتی ہیں، ان کے لیے کسی صورت زیارت قبور جائز نہیں۔ الغرض عورتوں کے لیے قبروں کی زیارت کرنا جائز ہے بشرطیکہ بار بار نہ جائیں، اجتماعی طور پر اس کا اہتمام نہ کریں اور وہاں جا کر خلاف شرع کاموں کا ارتکاب نہ کریں۔ والله أعلم۔
(3) امام بخاری ؒ نے جنازے سے متعلق دیگر مسائل و احکام سے زیارت قبور کو مقدم کیا ہے، کیونکہ اس سے انسان کا بار بار واسطہ پڑتا ہے، اس لیے امام بخاری نے اس عنوان کو دیگر احکام کے لیے اصل اور بنیاد قرار دیا ہے۔ (فتح الباري: 192/3)