تشریح:
1۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس شخص کا نام نہیں بتایا جس نے آپ کو اس واقعے کی خبر دی۔ اسی طرح حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں بھی اس شخص کے نام کی صراحت نہیں ہے کیونکہ معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس حدیث کو وفات کے وقت بیان کیا جبکہ آپ شام میں تھے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت جابر دونوں مدینہ منورہ میں رہتے تھے یہ دونوں حضرات وفات کے وقت حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس نہ تھے۔ حضرت عمرو بن میمون یا عبد الرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں خبر دی ہو گی کیونکہ اول الذکر وفات کے وقت وہاں موجود تھے اور ثانی الذکر بھی اس روایت کو حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کرتے ہیں۔ (فتح الباري: 300/1) حضرت عمرو بن میمون بھی حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس روایت کو نقل کرتے ہیں۔ (صحیح البخاري، الجهاد، حدیث: 2856)
2۔ اس حدیث میں صرف تو حید کا ذکر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو شاید راوی نے حذف کردیا ہے۔ مرجیہ اس روایت کو اپنے موقف کے اثبات کے لیے پیش کرتے ہیں کہ ایمان کے بعد کسی قول و فعل کی ضرورت نہیں حالانکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی آخری وقت صدق دل سے (لا إلَهَ إِلاَّ اللهُ) کہے گا۔ وہ ضرور جنت میں جائے گا۔ اورجہنم اس پر حرام ہو گی۔ مشہور حدیث بطاقہ کا بھی یہی محمل ہے۔ یا اس کا وہ مطلب ہے جو وہب بن منبہ نے بیان فرمایا ہے کہ کلمہ توحید (لا إلَهَ إِلاَّ اللهُ) جنت کی چابی ہے لیکن چابی کے دندانے ہوتے ہیں جن کے ذریعے سے تالا کھولا جاتا ہے۔ دندانوں کے بغیر تالا نہیں کھولا جا سکتا۔ کلمہ تو حید کے لیے اعمال صالحہ دندانے ہیں۔ (صحیح البخاري، الجنائز، باب 1) بشارت دینے کا معاملہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی مروی ہے انھیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے منع کر دیا تھا۔ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 147)