صحیح بخاری
23. کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
28. باب: ان کے بیان میں جنہوں نے نبی کریم ﷺکے زمانہ میں اپنا کفن خود ہی تیار رکھا اور آپ ﷺنے اس پر کسی طرح کا اعتراض نہیں فرمایا۔
باب: ان کے بیان میں جنہوں نے نبی کریم ﷺکے زمانہ میں اپنا کفن خود ہی تیار رکھا اور آپ ﷺنے اس پر کسی طرح کا اعتراض نہیں فرمایا۔
)
Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: (if) somebody prepared his shroud (before his death))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1290.
حضرت سہل ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ایک عورت نبی کریم ﷺ کے لیے تیار شدہ حاشیہ دار چادر لائی، تمھیں معلوم ہے کہ ’’بردہ‘‘ کیا چیزہے؟ لوگوں نے کہا: چادر کو کہتے ہیں۔ تو انہوں نے کہا: ہاں۔ الغرض عورت نے کہا: میں نے اس چادر کو اپنے ہاتھ سے تیار کیا ہے اور آپ کو پہنانے کے لیے لائی ہوں۔ نبی کریم ﷺ کو اس وقت ضرورت بھی تھی، اس لیے اسے قبول فرما لیا۔ پھر آپ باہر تشریف لائے تو وہ چادر آپ کی ازار تھی۔ ایک شخص نے اسکی تعریف کی اور کہنے لگا: کیا ہی عمدہ چادر ہے یہ مجھے عنائیت کردیجئے۔ لوگوں نے اس سے کہا: تو نے اچھا نہیں کیا کیونکہ نبی کریم ﷺ نے انتہائی ضرورت کے پیش نظر اسے زیب تن کیا تھا مگر تو نے اسے مانگ لیا ہے اور تجھے علم ہے کہ آپ ﷺ کسی کا سوال رد نہیں کرتے۔ اس شخص نے کہا: اللہ کی قسم! میں نے اسے پہننے کے لیے نہیں مانگا بلکہ اس لیے کہ وہ میرا کفن ہو۔ حضرت سہل ؓ فرماتے ہیں کہ پھر وہی چادر اس شخص کا کفن بنی۔
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ضرورت سے پہلے کسی چیز کو تیار کر لینا جائز ہے، اسی طرح اپنی زندگی میں کفن تیار کر کے رکھ لینا توکل کے منافی نہیں لیکن قبل از موت قبر تیار کر لینا تاکہ موت یاد رہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت نہیں۔ اگر یہ کام اچھا ہوتا تو کثرت سے قبر تیار کر کے رکھنے کے واقعات منقول ہوتے۔ پھر کسی کو کیا معلوم کہ اس نے کہاں مرنا ہے؟ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ﴾(لقمان: 31/34) ’’کسی کو علم نہیں کہ اسے کہاں موت نے آنا ہے۔‘‘(فتح الباري: 185/3) لیکن کفن کا معاملہ اس سے یکسر الگ ہے کہ انسان اپنے ہمراہ جہاں چاہے لے جا سکتا ہے۔ والله أعلم۔ (2) جس شخص نے رسول اللہ ﷺ سے چادر مانگ کر اسے بطور کفن رکھا تھا وہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ تھے، جیسا کہ محب الطبری نے اپنی کتاب "الاحکام" میں اس کی صراحت کی ہے، لیکن طبرانی نے اس حدیث کو بیان کیا تو قتیبہ بن سعید کے حوالے سے وضاحت کی ہے کہ وہ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ تھے۔ امام بخاری ؒ نے بھی قتیبہ بن سعید سے اس روایت کو کتاب اللباس میں بیان کیا ہے، لیکن اسے مبہم ہی رکھا ہے، نیز حافظ ابن حجر ؒ نے اس حدیث سے کئی ایک مسائل کا استنباط کیا ہے اور اس سے "تبرك بآثار الصالحین" کا مسئلہ بھی کشید کیا ہے۔ ہم اس کے متعلق وضاحت کر آئے ہیں کہ اسے صرف رسول اللہ ﷺ کی ذات بابرکات تک محدود رکھا جائے کیونکہ صحابہ کرام ؓ نے نبی ﷺ کے علاوہ کسی اور شخصیت سے تبرک حاصل نہیں کیا، نیز ایسا کرنے سے غلو اور شرک و بدعت کا دروازہ کھلتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ پر قیاس کر کے پیروں کا تبرک حاصل کرنا درست نہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1245
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1277
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1277
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1277
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
حضرت سہل ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ایک عورت نبی کریم ﷺ کے لیے تیار شدہ حاشیہ دار چادر لائی، تمھیں معلوم ہے کہ ’’بردہ‘‘ کیا چیزہے؟ لوگوں نے کہا: چادر کو کہتے ہیں۔ تو انہوں نے کہا: ہاں۔ الغرض عورت نے کہا: میں نے اس چادر کو اپنے ہاتھ سے تیار کیا ہے اور آپ کو پہنانے کے لیے لائی ہوں۔ نبی کریم ﷺ کو اس وقت ضرورت بھی تھی، اس لیے اسے قبول فرما لیا۔ پھر آپ باہر تشریف لائے تو وہ چادر آپ کی ازار تھی۔ ایک شخص نے اسکی تعریف کی اور کہنے لگا: کیا ہی عمدہ چادر ہے یہ مجھے عنائیت کردیجئے۔ لوگوں نے اس سے کہا: تو نے اچھا نہیں کیا کیونکہ نبی کریم ﷺ نے انتہائی ضرورت کے پیش نظر اسے زیب تن کیا تھا مگر تو نے اسے مانگ لیا ہے اور تجھے علم ہے کہ آپ ﷺ کسی کا سوال رد نہیں کرتے۔ اس شخص نے کہا: اللہ کی قسم! میں نے اسے پہننے کے لیے نہیں مانگا بلکہ اس لیے کہ وہ میرا کفن ہو۔ حضرت سہل ؓ فرماتے ہیں کہ پھر وہی چادر اس شخص کا کفن بنی۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ضرورت سے پہلے کسی چیز کو تیار کر لینا جائز ہے، اسی طرح اپنی زندگی میں کفن تیار کر کے رکھ لینا توکل کے منافی نہیں لیکن قبل از موت قبر تیار کر لینا تاکہ موت یاد رہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت نہیں۔ اگر یہ کام اچھا ہوتا تو کثرت سے قبر تیار کر کے رکھنے کے واقعات منقول ہوتے۔ پھر کسی کو کیا معلوم کہ اس نے کہاں مرنا ہے؟ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ﴾(لقمان: 31/34) ’’کسی کو علم نہیں کہ اسے کہاں موت نے آنا ہے۔‘‘(فتح الباري: 185/3) لیکن کفن کا معاملہ اس سے یکسر الگ ہے کہ انسان اپنے ہمراہ جہاں چاہے لے جا سکتا ہے۔ والله أعلم۔ (2) جس شخص نے رسول اللہ ﷺ سے چادر مانگ کر اسے بطور کفن رکھا تھا وہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ تھے، جیسا کہ محب الطبری نے اپنی کتاب "الاحکام" میں اس کی صراحت کی ہے، لیکن طبرانی نے اس حدیث کو بیان کیا تو قتیبہ بن سعید کے حوالے سے وضاحت کی ہے کہ وہ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ تھے۔ امام بخاری ؒ نے بھی قتیبہ بن سعید سے اس روایت کو کتاب اللباس میں بیان کیا ہے، لیکن اسے مبہم ہی رکھا ہے، نیز حافظ ابن حجر ؒ نے اس حدیث سے کئی ایک مسائل کا استنباط کیا ہے اور اس سے "تبرك بآثار الصالحین" کا مسئلہ بھی کشید کیا ہے۔ ہم اس کے متعلق وضاحت کر آئے ہیں کہ اسے صرف رسول اللہ ﷺ کی ذات بابرکات تک محدود رکھا جائے کیونکہ صحابہ کرام ؓ نے نبی ﷺ کے علاوہ کسی اور شخصیت سے تبرک حاصل نہیں کیا، نیز ایسا کرنے سے غلو اور شرک و بدعت کا دروازہ کھلتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ پر قیاس کر کے پیروں کا تبرک حاصل کرنا درست نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالعزیز بن ابی حازم نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ نے اور ان سے سہل ؓ نے کہ ایک عورت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک بنی ہوئی حاشیہ دار چادر آپ کے لیے تحفہ لائی۔ سہل بن سعد ؓ نے (حاضرین سے) پوچھا کہ تم جانتے ہو چادر کیا؟ لوگوں نے کہا کہ جی ہاں! شملہ۔ سہل ؓ نے کہا ہاں شملہ (تم نے ٹھیک بتایا) خیر اس عورت نے کہا کہ میں نے اپنے ہاتھ سے اسے بنا ہے اور آپ ﷺ کو پہنانے کے لیے لائی ہوں۔ نبی کریم ﷺ نے وہ کپڑا قبول کیا۔ آپ ﷺ کو اس کی اس وقت ضرورت بھی تھی پھر اسے ازار کے طورپر باندھ کر آپ ﷺ باہر تشریف لائے تو ایک صاحب (عبدالرحمن بن عوف ؓ ) نے کہا کہ یہ تو بڑی اچھی چادر ہے، یہ آپ ﷺ مجھے پہنا دیجئے۔ لوگوں نے کہا کہ آپ نے (مانگ کر) کچھ اچھا نہیں کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اسے اپنی ضرورت کی وجہ سے پہنا تھا اور تم نے یہ مانگ لیا حالانکہ تم کو معلوم ہے کہ آنحضور ﷺ کسی کا سوال رد نہیں کرتے۔ عبدالرحمن بن عوف ؓ نے جواب دیا کہ خدا کی قسم! میں نے اپنے پہننے کے لیے آپ ﷺ سے یہ چادر نہیں مانگی تھی۔ بلکہ میں اسے اپنا کفن بناؤں گا۔ سہل ؓ نے بیان کیا کہ وہی چادر ان کا کفن بنی۔
حدیث حاشیہ:
گویا حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نے اپنی زندگی ہی میں اپنا کفن مہیا کر لیا۔ یہی باب کا مقصد ہے۔ یہ بھی ثابت ہوا کہ کسی مخیر معتمد بزرگ سے کسی واقعی ضرورت کے موقع پر جائز سوال بھی کیا جا سکتا ہے۔ ایسی احادیث سے نبی اکرم ﷺ پر قیاس کر کے جو آج کے پیروں کا تبرک حاصل کیا جاتا ہے یہ درست نہیں کیونکہ یہ آپ ﷺ کی خصوصیات اور معجزات میں سے ہیں اور آپ ذریعہ خیروبرکت ہیں کوئی اور نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sahl (RA): A woman brought a woven Burda (sheet) having edging (border) to the Prophet, Then Sahl asked them whether they knew what is Burda, they said that Burda is a cloak and Sahl confirmed their reply. Then the woman said, "I have woven it with my own hands and I have brought it so that you may wear it." The Prophet (ﷺ) accepted it, and at that time he was in need of it. So he came out wearing it as his waist-sheet. A man praised it and said, "Will you give it to me? How nice it is!" The other people said, "You have not done the right thing as the Prophet (ﷺ) is in need of it and you have asked for it when you know that he never turns down anybody's request." The man replied, "By Allah, I have not asked for it to wear it but to make it my shroud." Later it was his shroud. ________