تشریح:
(1) ان احادیث کے ذریعے سے امام بخاری ؒ نے حضرت عائشہ اور حضرت ابن عمر ؓ کے درمیان ایک اختلاف کو حل کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی تھیں کہ کسی میت کو اس کے اہل خانہ کے اس پر رونے کی وجہ سے عذاب نہیں ہو گا، کیونکہ یہ ان کا اپنا فعل ہے، میت پر اس کا وبال نہیں پڑے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ﴾ (سورة الأنعام :164) ’’کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔‘‘ جبکہ حضرت ابن عمر ؓ اس کے برعکس یہ فرماتے تھے کہ میت کو گھر والوں کے اس پر رونے کی وجہ سے عذاب ہو گا اور اسے حدیث سے ثابت کرتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کا جواب دیا کہ حدیث میں ایک جزوی واقعہ بیان ہوا ہے کہ ایک یہودی عورت کو عذاب دیا جا رہا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اسے تو عذاب دیا جا رہا ہے اور اس کے گھر والے اس پر رو رہے ہیں جسے حضرت ابن عمر ؓ نے مسلمانوں اور دوسرے لوگوں کے لیے عام ضابطہ خیال کیا۔ علماء نے لکھا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کا حضرت ابن عمر ؓ کو غلطی اور سہو کی طرف منسوب کرنا درست نہیں، کیونکہ دوسرے صحابہ کرام ؓ سے بھی حضرت ابن عمر ؓ کی طرح کی روایات ملتی ہیں۔ اس بنا پر سب کو تو وہم نہیں ہو سکتا۔ حافظ ابن حجر ؒ نے میت کو اہل خانہ کے رونے کی وجہ سے عذاب ہونے کی تقریبا آٹھ وجوہ بیان کی ہیں جنہیں بالتفصیل فتح الباری میں دیکھا جا سکتا ہے۔ (فتح الباري: 198/3) اس سلسلے میں امام بخاری ؒ نے جو توجیہ اختیار کی ہے اسے عنوان میں تفصیل سے بیان کر دیا ہے کہ میت کو اس کے گھر والوں کے رونے سے اس وقت عذاب ہو گا جب اس نے اپنے اہل و عیال کے لیے نوحہ کا طریقہ جاری یا پسند کیا ہو یا یہ جانتے ہوئے کہ وہ اس کے مرنے کے بعد اس پر نوحہ و ماتم کریں گے، انہیں اس کام سے باز رہنے کی وصیت نہ کی ہو، کیونکہ ایام جاہلیت میں لوگ اپنے مرنے پر نوحہ کرنے کی وصیت کیا کرتے تھے۔ اسلام نے نوحے اور ماتم سے منع فرمایا کہ رو رو کر مرنے والے کے اوصاف بیان نہ کیے جائیں یا ایسے اوصاف و افعال بیان نہ کیے جائیں جو شرعا ممنوع اور ناقابل بیان ہوں۔ صحیح اوصاف حمیدہ بیان کرنے پر کوئی قدغن نہیں، لیکن انہیں روتے ہوئے بیان نہ کیا جائے۔ نوحے کے بغیر رونے یا خودبخود آنسو آ جانے کی بھی اجازت ہے۔ (2) امام بخاری نے لفظ "بعض" سے اشارہ کیا کہ جو رونا غلط ہے اس کا سبب چونکہ میت ہے، اس لیے اسے عذاب ہو گا، کیونکہ ہر شخص کو اپنی اور اپنے اہل و عیال کی اصلاح کرنی چاہیے۔ گھر والوں کو غلط راستے سے نہ روکنے کی بنا پر میت سے مؤاخذہ ہو گا۔ اور جس رونے کی اجازت ہے وہ تو باعث رحمت اور رقتِ قلب کی علامت ہے، اس کی وجہ سے عذاب نہ ہو گا۔ امام بخاری نے پیش کردہ احادیث سے اس پر استدلال کیا ہے، یعنی اس توجیہ کا حاصل، عنوان کے مسئلے کو متعدد احوال پر تقسیم کرنا ہے، نیز یہ بتانا ہے کہ شریعت جہاں گناہ کے ارتکاب کا مؤاخذہ کرتی ہے وہاں جو اس گناہ کے ارتکاب کا سبب بنتا ہے، اسے بھی پکڑتی ہے، لہذا کسی ایک حکم کو سب حالات پر لاگو کرنا اور دوسری صورت کو بالکل نظرانداز کر دینا درست نہیں۔ امام ابن حزم ؒ کی توجیہ بھی قابل ملاحظہ ہے کہ اہل جاہلیت نوحہ کرتے وقت میت کے وہ افعال ذکر کیا کرتے تھے جو عذاب جہنم کا سزاوار بنانے والے ہوتے تھے، مثلا: تم نے فلاں قبیلے کو عداوت کی وجہ سے تہس نہس کر دیا، فلاں قبیلے پر غارت گری کی تھی، اس طرح کے مظالم کو وہ فخر کے طور پر بیان کرتے تھے۔ چونکہ یہ سب افعال شنیعہ میت کے ہوتے تھے، اس لیے ان کی وجہ سے اسے عذاب ہو گا، رونا اس کا سبب نہ ہو گا۔ بالفاظ دیگر میت کو عذاب اس کے اپنے افعال کی وجہ سے ہو گا دوسرے کے نوحہ کرنے سے نہیں ہو گا۔ یہ الگ بات ہے کہ نوحہ و ماتم کرنے والوں سے خلاف شرع کام کرنے کی وجہ سے مؤاخذہ ہو گا۔ (3) یہ توجیہ بھی قابل ملاحظہ ہے کہ عذاب سے مراد میت کو عار دلانا ہے۔ جیسا کہ حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ کا واقعہ ہے کہ جب ان پر غشی طاری ہوئی تو ان کی بہن نے نوحہ کرنا شروع کر دیا کہ تم ایسے تھے تم ایسے تھے۔ اس وقت فرشتوں نے حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ سے کہا کہ کیا واقعی تم ایسے تھے؟ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4267) الغرض حافظ ابن حجر ؒ نے بڑی نفیس بحث کی ہے، اسے ایک نظر دیکھ لیا جائے۔ (فتح الباري: 197/3، 198، 199) (4) جس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک یہودی عورت کی میت کے پاس سے گزرے تو آپ نے فرمایا کہ یہ تو اس پر گریہ وزاری کر رہے ہیں جبکہ اسے اپنی قبر میں عذاب ہو رہا ہے۔ اس سے بعض فتنہ پرور لوگوں نے برزخی قبر کا شاخسانہ کشید کیا ہے کہ عذاب قبر اس زمینی قبر میں نہیں ہوتا بلکہ برزخی قبر میں ہوتا ہے جیسا کہ اس حدیث میں ہے، حالانکہ برزخی قبر کا انکشاف اس دور کی ایجاد ہے۔ قرون اولیٰ میں اس قبر سے کوئی متعارف نہیں تھا، ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ﴿وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰ أَحَدٍ مِّنْهُم مَّاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَىٰ قَبْرِهِ﴾ (سورة التوبة: 84) ’’ان (منافقین) میں سے کوئی مر جائے تو آپ نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی اور نہ ہی اس کی قبر پر کھڑے ہونا ہے۔‘‘ اس مقام میں رسول اللہ ﷺ کو منافقین کی قبر پر کھڑے ہو کر دعا کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اس سے مراد زمینی قبر ہے کیونکہ ’’برزخی قبر‘‘ تک کسی بندہ بشر کی رسائی نہیں ہو سکتی۔ اس کے علاوہ مذکورہ حدیث ایک اور سند سے اس طرح مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک یہودی میت کی قبر سے گزرے تو آپ نے فرمایا: ’’اسے عذاب ہو رہا ہے اور اس کے اہل خانہ اس پر گریہ و زاری کر رہے ہیں۔‘‘ (سنن أبي داود، الجنائز، حدیث: 3129) اس روایت میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ زمینی قبر ہی سے گزرے تھے۔ اس کی تفصیل آئندہ بیان ہو گی۔