تشریح:
(1) قبل ازیں ایک حدیث میں وضاحت تھی کہ رونے والی حضرت جابر ؓ کی پھوپھی فاطمہ تھیں۔ (حدیث: 1244) لیکن امام حاکم نے اپنی کتاب الإكليل میں اس کا نام ہند بنت عمرو لکھا ہے۔ ممکن ہے کہ دونوں بہنیں وہاں موجود ہوں یا ایک ہی مراد ہو، مذکورہ نام اس کا لقب ہو یا اس کے دو نام ہوں۔ (فتح الباري:208/3) (2) رسول اللہ ﷺ نے حضرت جابر ؓ کے والد گرامی پر فرشتوں کے سایہ کرنے کا ذکر فرمایا کہ اس قدر عظیم منصب کے حصول پر تو خوش ہونا چاہیے نہ کہ اس پر رونے دھونے کی زحمت گوارا کی جائے۔ یہ رونے کا کیا موقع ہے! اس ارشاد مبارک میں اغماض کے ساتھ عدم رضا بھی موجود ہے۔ اغماض اور رضا میں فرق ضرور ملحوظ رکھنا چاہیے۔ بعض صورتوں میں اظہار ناپسندیدگی کر کے درگزر کی شرعی گنجائش ہوتی ہے، چنانچہ اس عنوان کے تحت امام بخاری ؒ نے اسی حقیقت کو بیان فرمایا ہے۔ میت پر رونے اور بین کرنے کا دروازہ کھولنا قطعا مقصود نہیں۔ والله أعلم۔