تشریح:
(1) راوی کے بیان کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے حضرت سعد بن خولہ ؓ کے متعلق صرف اظہارِ رنج و غم فرمایا کہ انہیں مکہ ہی میں موت آ گئی۔ اس کے متعلق محدث اسماعیلی نے امام بخاری ؒ پر اعتراض کیا ہے کہ مذکورہ حدیث عنوان کے مطابق نہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا حزن و ملال، مرثیے میں سے نہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ شاید امام بخاری ؒ کا مقصد مرثیہ مباح کی صورت بتانا ہے، کیونکہ ایسا مرثیہ جس سے غم کے جذبات بھڑکنے کا اندیشہ ہو اس کی ممانعت ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے مرثیے سے منع فرمایا ہے، جیسا کہ مسند احمد وغیرہ میں ہے۔ (مسند أحمد: 356/4 ،383) مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ ؓ سے مروی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں مرثیہ خوانی سے منع فرمایا۔ (المصنف لابن أبي شیبة: 302/3، 392، 394، 395) لیکن امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے کسی میت کے متعلق مرثیے کے الفاظ استعمال کیے جا سکتے ہیں، کیونکہ اس سے مراد اپنی ہمدردی اور شرکتِ غم کا اظہار کرنا ہے۔ (فتح الباري:210/3) بعض شارحین نے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کے اس واقعے کو فتح مکہ سے متعلق قرار دیا ہے، حالانکہ اس حدیث میں صراحت ہے کہ یہ واقعہ حجۃ الوداع کے موقع پر پیش آیا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ رسول اللہ ﷺ کی پیشن گوئی کے مطابق مدت تک زندہ رہے۔ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ایران اور عراق ان کے ہاتھوں فتح ہوئے۔ بےشمار لوگ ان کے ہاتھوں مسلمان ہوئے اور کئی ایک ان کے ہاتھوں جہنم واصل ہوئے۔ (2) حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کو رسول اللہ ﷺ کی تسلی کے بعد یہ خیال پیدا ہوا کہ میری زندگی ابھی باقی ہے اور اس بیماری میں میرا انتقال نہیں ہو گا، اس لیے انہوں نے سوال کیا کہ آیا میں اپنے ساتھیوں سے پیچھے رہ جاؤں گا، یعنی آپ تو حجۃ الوداع سے فارغ ہو کر مکہ معظمہ سے اپنے صحابہ کے ساتھ مدینہ منورہ چلے جائیں گے اور میں یہاں اکیلا رہ جاؤں گا۔ یہ فکر اس لیے دامن گیر ہوئی کہ صحابہ کرام ؓ ہجرت کے بعد مکہ میں رہ جانے کو اچھا نہیں جانتے تھے اور سمجھتے تھے کہ دارہجرت ہی میں موت آئے تو ہجرت کی تکمیل ہو گی، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر تم رہ بھی جاؤ تو کوئی حرج والی بات نہیں، یہاں بھی جو نیک اعمال کرو گے ان کا نفع اور ثواب تمہیں مکہ معظمہ میں بھی ضرور حاصل ہو گا۔‘‘ پھر آپ نے دعا فرمائی کہ یا اللہ! میرے صحابہ کرام کے لیے ان کی ہجرت کو کامل کر دے اور ان کے قدم کمال سے نقص اور کمی کی طرف نہ لوٹیں۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کے سوال کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ میں اس مرض سے نجات پر مزید زندگی پاؤں گا کہ میں اپنے ساتھیوں سے بعد میں وفات پاؤں۔ اس کے جواب میں آپ کا دوسرا ارشاد ہے کہ تمہاری عمر دراز ہو گی اور تمہاری موت مکہ مکرمہ میں نہیں ہو گی، چنانچہ اس کے بعد حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ چالیس سال تک زندہ رہے، عراق و ایران فتح کیا، نیز ان سے مسلمانوں کو بہت نفع پہنچا اور کفارومشرکین پر ان کی وجہ سے بہت تکلیفیں آئیں۔