تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے مذکورہ حدیث پر ایک اور عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: (كلام الميت علی الجنازة) ’’میت کا چارپائی پر کلام کرنا‘‘ یہ تکرار نہیں، کیونکہ اس حدیث سے جنازے کو جلدی لے کر چلنا ثابت کیا گیا ہے۔ گویا یہ پہلے عنوان کا تکملہ اور تتمہ ہے اور یہ باب فی باب کی قبیل سے ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ جنازہ اٹھاتے ہی اس کی پیشی شروع ہو جاتی ہے۔ (2) واضح رہے کہ جنازہ اٹھاتے وقت اللہ تعالیٰ میت کو برزخی زبان عطا کر دیتا ہے۔ اگر وہ جنتی ہے تو اس جنت کے شوق میں کہتا ہے کہ مجھے جلدی جلدی لے چلو تاکہ میں اپنی مراد کو حاصل کروں اور اگر دوزخی ہے تو گھبرا کر کہتا ہے کہ مجھے کہاں لے جا رہے ہو؟ اس وقت اللہ تعالیٰ ایسے طریقے سے بولنے کی طاقت دیتا ہے کہ اس کی آواز کو جنوں اور انسانوں کے علاوہ تمام مخلوق سنتی ہے۔ (3) اس حدیث سے بعض حضرات نے سماع موتیٰ کا مسئلہ کشید کیا ہے جو بالکل بے بنیاد ہے۔ اس کی وضاحت ہم حدیث: 3976 میں کریں گے۔ (4) (إذا وضعت الجنازة) کے دو مفہوم ہیں: ایک یہ کہ جب میت کو تیار کر کے چارپائی پر رکھ دیا جاتا ہے، دوسرا یہ کہ جب میت کو گردنوں پر اٹھا لیا جاتا ہے۔ پہلا مفہوم زیادہ واضح ہے اور اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’نیک آدمی کو جب چارپائی پر رکھا جاتا ہے تو کہتا ہے کہ مجھے جلد لے چلو، مجھے جلد لے چلو۔‘‘ (سنن النسائي، الجنائز، حدیث: 1909)