تشریح:
(1) پہلے عنوان میں یہ صراحت نہ تھی کہ دو صفوں سے زیادہ صفیں بھی بنائی جا سکتی ہیں، اس بنا پر وضاحت سے اس عنوان میں بتایا گیا ہے کہ دو صفوں سے زیادہ صفیں بنانا بھی جائز ہے، نیز عطاء ؒ کا موقف ہے کہ جنازے کے لیے صف بندی کی سرے سے ضرورت ہی نہیں، جیسا کہ مصنف عبدالرزاق میں اس کی تفصیل ہے۔ حضرت ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عطاء سے دریافت کیا کہ جنازہ کے لیے نماز کی طرح صف بندی کرنا ضروری ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: اس کے لیے صف بندی کی ضرورت نہیں، بلکہ تکبیریں کہہ کر میت کے لیے دعائیں کرنا ہی کافی ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں: امام بخاری ؒ نے عنوان میں لفظ صفوف لا کر اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جنازے کے لیے تین صفیں بنانا مستحب ہے۔ اس کے لیے ایک صریح حدیث بھی ہے کہ جس جنازے میں کم از کم تین صفیں ہوں اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے۔ (سنن أبي داود، الجنائز، حدیث: 3166) ایک روایت میں ہے کہ اس میت کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔ (فتح الباري: 239/3) لیکن حافظ ابن حجر ؒ نے جو حدیث پیش کی ہے اس میں محمد بن اسحاق نامی ایک راوی مدلس ہے، اس نے کسی روایت میں بھی تصریح سماع نہیں کی۔ اس بنا پر ایسی ضعیف روایت سے استحباب ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ (2) امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان اور پیش کردہ احادیث میں مطابقت واضح نہیں، کیونکہ عنوان میں میت کے لیے جنازہ پڑھتے وقت صفیں باندھنے کا ذکر ہے، لیکن احادیث میں قبر پر یا غائبانہ جنازہ پڑھنے کا ذکر ہے۔ اس کا جواب علامہ کرمانی ؒ نے دیا ہے کہ جنازے سے مراد میت ہے، وہ مدفون ہو یا غیر مدفون، نیز جب غائبانہ نماز جنازہ کے لیے صفیں باندھی جاتی ہیں تو حاضر میت کے لیے بطریق اولیٰ صفیں باندھنا ہوں گی۔ وهو المقصود۔ اس لیے عنوان اور احادیث میں کوئی منافات نہیں۔ (فتح الباري: 239/3) (3) ان احادیث سے غائبانہ نماز جنازہ بھی ثابت ہوتا ہے، اگرچہ امام بخاری ؒ نے اس کے لیے الگ عنوان بندی نہیں کی۔ اسی طرح حضرت عمران بن حصین ؓ سے مروی ایک حدیث میں بھی اس کا ذکر ہے۔ (مسند أحمد: 431/4) بعض حضرات غائبانہ نمازِ جنازہ کو ناجائز قرار دیتے ہیں اور نجاشی کا جنازہ غائبانہ پڑھنا رسول اللہ ﷺ کی خصوصیت کہتے ہیں کیونکہ بعض روایات میں ہے کہ نماز جنازہ پڑھتے وقت رسول اللہ ﷺ کے لیے زمین کے تمام پردے ہٹا دیے گئے تھے اور نجاشی کی میت آپ کے سامنے تھی، لیکن یہ روایت محض اوہام و خیالات میں سے ہے۔ اس کی کچھ حقیقت نہیں۔ (المجموع: 253/5) (4) بعض حضرات کا خیال ہے کہ اگر غائب شخص ایسے شہر میں فوت ہوا ہو جہاں اس کی نماز جنازہ نہ ادا کی گئی ہو تو پھر اس کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی جا سکتی ہے، لیکن احادیث میں اس کی کوئی صراحت نہیں کہ نجاشی کی نماز جنازہ اس کے شہر میں نہیں پڑھی گئی تھی۔ (فتح الباري: 241/3) ہمارے نزدیک غائبانہ نماز جنازہ ہر ایک کے لیے مشروع نہیں۔ اگر کسی کی سیاسی، مذہبی، علمی یا سماجی خدمات ہوں تو اس کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے نجاشی کے علاوہ کسی اور صحابی کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے کا ثبوت نہیں ملتا، حالانکہ متعدد صحابہ کرام ؓ رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں مدینہ سے باہر فوت ہوئے ہیں۔ اس کی مزید وضاحت ہم شہید کی نماز جنازہ کے بیان میں کریں گے۔ إن شاءالله۔