تشریح:
1۔ امام بخاری کا مقصد یہ ہے کہ نماز کے لیے طہارت شرط ہے اس کے بغیر کوئی نماز درست نہ ہوگی۔ خواہ نماز فرض ہو یا نفل یا نماز جنازہ، دوران اقامت میں ادا کی جائے یا اثنائے سفر میں اگر طہارت نہیں تو قبولیت کا ادنیٰ درجہ بھی حاصل نہیں ہو گا۔ ادنیٰ ٰدرجے سے مراد یہ ہے کہ فرض ادا ہو جائے خواہ ثواب ملے یا نہ ملے۔ اگر طہارت کے ساتھ نماز شروع کی تھی پھر دوران نماز وضو ٹوٹ گیا تو بھی ناقابل قبول ہے گویا نماز کا کوئی حصہ بھی طہارت کے بغیر درست نہیں۔ بعض لوگ بنا کے قائل ہیں یعنی وہ کہتے ہیں کہ جہاں سے نماز ٹوٹی تھی وضو کر کے وہیں سے نماز پڑھ کر نماز پوری کر لے، لیکن اس کی کوئی صحیح دلیل نہیں۔ ایک ضعیف حدیث اس مسئلہ بنا کی بنیاد ہے جب کہ ضعیف حدیث سے کوئی مسئلہ ثابت نہیں ہوتا۔
2۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جواب دوران نماز میں حدث پیش آنے سے متعلق ہے کہ اس سے مراد فساء، یعنی ریح کا بغیر آواز کے خارج ہونا، یا ضراط، یعنی ریح کا آواز کے ساتھ خارج ہونا ہے۔ کیونکہ دوران نماز میں عام طور پر خروج ریح کی صورت ہی پیش آتی ہے بصورت دیگر نواقض وضو تو اس کے علاوہ اور بھی ہیں۔
3۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو کتاب الحیل (6954) میں بھی بیان کیا ہے۔ وہاں حیلہ گری کی تردید مقصود ہے لیکن وہاں کسی حیلے کی وضاحت نہیں کی جس پر اس حدیث کا انطباق ہوتا ہو۔ بخاری کے شارح ابن بطال نے اس کی تشریح بایں الفاظ کی ہے کہ اس سے ان حضرات کی تردید مقصود ہے جنھوں نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ آخری تشہد میں ہوا نکلنے کا اندیشہ ہو تو سلام پھیرنے کے بجائے اگر قصداً ہوا خارج کردی جائے تو نماز صحیح ہے یہ موقف اس لیے غلط ہے کہ نماز کی تکمیل سلام ہی سے ہوتی ہے اور بزور ہوا کا خارج کرنا یا ہونا کسی صورت میں سلام کا بدل نہیں ہو سکتا لہٰذا ایسی نماز باطل ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد ہے کہ اس قسم کی حیلہ گری اسلام میں ناجائز اور حرام ہے۔ (شرح البخاري لإبن بطال: 312/8)