صحیح بخاری
3. کتاب: علم کے بیان میں
50. باب: اس بیان میں کہ مسائل شرعیہ بیان کرنے میں جو شخص(کسی معقول وجہ سے) شرمائے وہ کسی دوسرے آدمی کےذریعہ سے معلوم کر لے۔
صحيح البخاري
3. كتاب العلم
50. بَابُ مَنِ اسْتَحْيَا فَأَمَرَ غَيْرَهُ بِالسُّؤَالِ
Sahi-Bukhari
3. Knowledge
50. Chapter: Whosoever felt shy (to ask something) and then requested another person to ask on his behalf
باب: اس بیان میں کہ مسائل شرعیہ بیان کرنے میں جو شخص(کسی معقول وجہ سے) شرمائے وہ کسی دوسرے آدمی کےذریعہ سے معلوم کر لے۔
)
Sahi-Bukhari:
Knowledge
(Chapter: Whosoever felt shy (to ask something) and then requested another person to ask on his behalf)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
135.
حضرت علی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا؛ میری مذی بہت نکلا کرتی تھی۔ میں نے حضرت مقداد ؓ سے کہا کہ وہ نبی ﷺ سے اس کا حکم پوچھیں، چنانچہ انہوں نے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: ’’مذی کے لیے وضو کرنا چاہئے۔‘‘
تشریح:
1۔ دوسری روایت میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ دریافت نہ کر سکے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ کے نکاح میں تھیں۔ (صحیح البخاري، الغسل، حدیث: 269) اس خاص رشتے داری کی وجہ سے خود پوچھنا مناسب خیال نہ کیا۔ اس طرح کی شرم میں کوئی قباحت نہیں جبکہ کسی دوسرے کے ذریعے سے مسئلہ دریافت کر لیا جائے، چنانچہ آپ نے پہلے حضرت عمار کو کہا پھر مقداد کو حکم دیا کہ وہ اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کریں بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی موجودگی میں یہ مسئلہ دریافت کیا۔ (فتح الباري: 493/1) 2۔ بیوی کے ساتھ بوس و کنار کی صورت میں عضو مخصوص سے رطوبت خارج ہوتی ہے۔ اسے مذی کہا جاتا ہے۔ یہ پیشاب کی طرح ناقض وضو ہے۔ اس کے خارج ہونے سے غسل ضروری نہیں بلکہ صرف وضو ہی کافی ہے۔ اس حدیث سے متعلق دیگر احکام ومسائل کتاب الوضو اور کتاب الغسل میں بیان ہوں گے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
134
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
132
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
132
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
132
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علم کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ علم، جہالت کی ضد ہے اور جہالت تاریکی کا نام جس میں واضح چیزیں بھی چھپی رہتی ہیں اور جب علم کی روشنی نمودار ہوتی ہے تو چھپی چیزیں بھی واضح ہونے لگتی ہیں۔ انھوں نے علم کی تعریف سے تعرض نہیں کیا، اس لیے کہ علم کو تعریف کی ضرورت نہیں۔عطرآں باشد کہ خود بیویدانہ کہ عطاربگوید نیز اشیاء کی حقیقت و ماہیت بیان کرنا اس کتاب کا موضوع نہیں ہے۔ایمانیات کے بعد کتاب العلم کا افتتاح کیا کیونکہ ایمان کے بعد دوسرا درجہ علم کا ہے۔اس کا ارشاد کلام الٰہی سے بھی ملتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:(يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ)( المجادلۃ 58۔11۔)"اللہ تعالیٰ تم میں سے اہل ایمان اور اہل علم کے درجات بلند کردے گا۔"اس آیت کریمہ میں پہلے اہل ایمان اور پھر اہل علم کا تذکرہ ہے چونکہ ایمان کی پابندی ہر مکلف پر سب سے پہلے عائد ہوتی ہے نیز ایمان سب سے افضل و اعلیٰ اور ہر علمی اور عملی خیر کا اساسی پتھر ہے، اس لیے علم سے پہلے ایمان کا تذکرہ ضروری تھا۔ ایمانیات کے بعد کتاب العلم لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو چیزیں ایمان میں مطلوب ہیں اور جن پر عمل کرنے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر ایمان اور علم میں ایک گہرا رشتہ بھی ہے وہ یہ کہ علم کے بغیر ایمان میں روشنی اور بالیدگی پیدا نہیں ہوتی اور نہ ایمان کے بغیر علوم و معاررف ہی لائق اعتنا ہیں۔کتاب العلم کو دیگر ابواب سے پہلے بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر ابواب کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے اور اللہ کے ہاں اس عمل کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوگا جوعلی وجہ البصیرت کیا جائے گا۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دنیاوی علوم میں مہارت پیدا کرنا کوئی پسندیدہ اور کار آمد مشغلہ نہیں کیونکہ ان کا فائدہ عارضی اور چند روز ہے۔ ان کے نزدیک اصل علم قرآن و حدیث کا علم ہے۔ پھر ان دونوں کے متعلق اللہ کی عطا کردہ فہم و فراست ہے کیونکہ ایسے معارف کا نفع مستقل اور پائیدار ہے پھر اگر اس علم کو اخلاص و عمل سے آراستہ کر لیا جائے تو آخرت میں ذریعہ نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اکثریت کے متعلق بایں الفاظ شکوہ کیا ہے:(يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ)"وہ تو دنیا وی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں۔اور اخروی معاملات سے تو بالکل ہی بے خبر ہیں۔"( الروم :30۔7۔)اس بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب العلم میں حقیقی علم کی اہمیت و حیثیت ،افادیت ،علم حدیث، اس کے آداب وفضائل ، اس کی حدود و شرائط ، آداب تحمل حدیث ،آداب تحدیث ، صیغ ادا، رحلات علمیہ، کتابت حدیث،آداب طالب ، آداب شیخ ، فتوی ، آداب فتوی اور ان کے علاوہ بے شمار علمی حقائق و معارف کو بیان کیا ہے جن کی مکمل تفصیل اس تمہیدی گفتگو میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ آئندہ صفحات میں موقع و محل کے مطابق ایسے علمی جواہرات کی وضاحت کی جائے گی۔ قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ ان تمہیدی گزارشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب العلم کا مطالعہ کریں۔
تمہید باب
اگر کوئی پوچھنے کی بات ہو اور آدمی خود شرم کی وجہ سے دریافت کرنے کی پوزیشن میں نہ ہو تو کسی دوسرے کی معرفت تحقیق کر کے اس پر عمل کرنا چاہیے۔
حضرت علی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا؛ میری مذی بہت نکلا کرتی تھی۔ میں نے حضرت مقداد ؓ سے کہا کہ وہ نبی ﷺ سے اس کا حکم پوچھیں، چنانچہ انہوں نے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: ’’مذی کے لیے وضو کرنا چاہئے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ دوسری روایت میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ دریافت نہ کر سکے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ کے نکاح میں تھیں۔ (صحیح البخاري، الغسل، حدیث: 269) اس خاص رشتے داری کی وجہ سے خود پوچھنا مناسب خیال نہ کیا۔ اس طرح کی شرم میں کوئی قباحت نہیں جبکہ کسی دوسرے کے ذریعے سے مسئلہ دریافت کر لیا جائے، چنانچہ آپ نے پہلے حضرت عمار کو کہا پھر مقداد کو حکم دیا کہ وہ اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کریں بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی موجودگی میں یہ مسئلہ دریافت کیا۔ (فتح الباري: 493/1) 2۔ بیوی کے ساتھ بوس و کنار کی صورت میں عضو مخصوص سے رطوبت خارج ہوتی ہے۔ اسے مذی کہا جاتا ہے۔ یہ پیشاب کی طرح ناقض وضو ہے۔ اس کے خارج ہونے سے غسل ضروری نہیں بلکہ صرف وضو ہی کافی ہے۔ اس حدیث سے متعلق دیگر احکام ومسائل کتاب الوضو اور کتاب الغسل میں بیان ہوں گے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، ان سے عبداللہ ابن داؤد نے اعمش کے واسطے سے بیان کیا، انھوں نے منذر ثوری سے نقل کیا، انھوں نے محمد ابن الحنفیہ سے نقل کیا، وہ حضرت علی ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ میں ایسا شخص تھا جسے جریان مذی کی شکایت تھی، تو میں نے (اپنے شاگرد) مقداد کو حکم دیا تھا کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے دریافت کریں۔ تو انھوں نے آپ ﷺ سے اس بارے میں پوچھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس (مرض) میں غسل نہیں ہے (ہاں) وضو فرض ہے۔
حدیث حاشیہ:
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے رشتہ دامادی کی بنا پر اس مسئلے کے بارے میں شرم محسوس کی مگر مسئلہ معلوم کرنا ضروری تھا تووہ دوسرے صحابی کے ذریعے دریافت کرایا۔ اسی سے ترجمۃ الباب ثابت ہوتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ali (RA): I used to get the emotional urethral discharge frequently so I requested Al-Miqdad to ask the Prophet (ﷺ) about it. Al-Miqdad asked him and he replied, "One has to perform ablution (after it)." (See Hadith No. 269).