باب:اس بیان میں کہ مردہ لوٹ کر جانے والوں کے جوتوں کی آواز سنتا ہے
)
Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: A dead person hears the footsteps (of the living))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1351.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:’’جب بندے کو اس کی قبر میں رکھ دیا جا تا ہے اور اس کے ساتھی دفن سے فارغ ہو کر واپس ہوتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے۔ اس وقت اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھا کر پوچھتے ہیں:تو اس شخص محمد ﷺ کے متعلق کیا اعتقاد رکھتا تھا؟ اگر وہ جواب دے:میں گواہی دیتا تھا کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں تو اسے کہا جا تاہے:تو اپنے دوزخی مقام کو دیکھ، اس کے عوض اللہ تعالیٰ نے تجھے جنت میں ٹھکانا دیا ہے۔‘‘ نبی ﷺ نے فرمایا:’’وہ دونوں مقامات کو دیکھتا ہے۔ لیکن کافر یا منافق کا یہ جواب ہوتا ہے۔ میں کچھ نہیں جانتا، جو دوسرے لوگ کہتے تھے وہی میں کہہ دیتا تھا، پھر اس سے کہا جاتا ہے:تونے عقل سے کام لیا نہ انبیاء کی پیروی کی، پھر اس کے دونوں کانوں کے درمیان لوہے کے ہتھوڑے سے ایک ضرب لگائی جاتی ہے کہ وہ چیخ اٹھتا ہے۔ اس کی چیخ پکارجن وانس کے علاوہ اس کے آس پاس کی تمام چیزیں سنتی ہیں۔‘‘
تشریح:
(1) حافظ ابن حجرؓ نے ابن منیر کے حوالے سے امام بخاری ؒ کا اس عنوان سے مقصد بایں الفاظ بیان کیا ہے کہ دفن کے آداب کا لحاظ رکھیں، شوروغل اور زمین پر زور زور سے پاؤں نہ ماریں، میت کے ساتھ وہی سلوک کریں جو سوئے ہوئے آدمی سے کیا جاتا ہے، نیز یہ دفن کے بعد سوال و جواب کے جلد شروع ہونے سے کنایہ ہے کہ دفن سے فارغ ہونے والے ابھی قریب ہی ہوتے ہیں کہ اس سے باز پرس شروع ہو جاتی ہے۔ صحیح بخاری کی حدیثِ اسماء میں یہ الفاظ ہیں:’’تمہارا علم اس شخص کے متعلق کیا تھا؟‘‘ (حدیث: 86) اور حدیث انس میں ہے کہ ’’تو دنیا میں اس شخص کے متعلق کیا کہا کرتا تھا؟‘‘ (2) ان احادیث سے بعض حضرات نے یہ مسئلہ کشید کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ قبر میں خود تشریف لاتے ہیں اور میت سے سوال جواب کے وقت آپ کو سامنے کیا جاتا ہے، حالانکہ اس سے صرف استحضار ذہنی مراد ہے، یعنی وہ نقشہ جو آدمی کے دل و دماغ میں ہوتا ہے، اس کا اظہار مقصود ہے، جیسا کہ ہرقل نے ایک دفعہ حضرت ابو سفیان ؓ سے سوال کیا تھا: ’’تم میں سے نسب کے اعتبار سے کون اس شخص کے قریب تر ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، بدءالوحي، حدیث:7) جبکہ رسول اللہ ﷺ اس مجلس میں موجود نہیں تھے۔ وہاں موجود نہ ہونے کے باوجود آپ کے لیے اشارہ قریب "هٰذا" استعمال کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ میت کا جواب بھی اس کا مؤید ہے، وہ جواب میں کہے گا کہ وہ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ سوال و جواب کے وقت رسول اللہ ﷺ کے وہاں موجود ہونے کے متعلق کتاب و سنت میں کوئی دلیل نہیں۔ اگر آپ کی شخصیت کو سامنے کر دیا جائے تو ابوجہل کے لیے تو وجودی معرفت بہت آسان ہے، کیونکہ اس نے آپ کو دیکھا ہوا ہے جبکہ آپ کے بعد آنے والے اہل ایمان کے لیے وجودی معرفت بہت مشکل ہو گی، کیونکہ انہیں تو آپ کی رؤیت حاصل نہیں ہوئی، حالانکہ معاملہ اس کے برعکس ہو گا۔ مومن کی معرفت ایمان پر موقوف ہے جس کا تعلق باطن سے ہے اور کافر وجودی معرفت کے باوجود پہچان سے قاصر رہے گا، کیونکہ اس کا دل معرفت ایمان سے خالی ہے۔ (3) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس قبر میں میت کو دفن کیا جاتا ہے سوال و جواب کا سلسلہ بھی وہیں جاری رہتا ہے، پھر راحت و عذاب کا احساس بھی اسی قبر میں ہو گا۔ بعض فتنہ پرور لوگوں نے برزخی قبر کا شاخسانہ قائم کیا ہے جس کا کتب حدیث میں کوئی ثبوت نہیں۔ جس شخص کو قبر نہ مل سکے، یعنی وہ پانی میں غرق ہو کر سمندری جانوروں کی خوراک بن گیا یا وہ جل کر راکھ ہو گیا یا کسی حادثے میں اس طرح ریزہ ریزہ ہوا کہ اس کے اجزاء نہ مل سکے ہوں تو ایسا انسان جہاں کہیں بھی پڑا ہے وہی اس کی قبر ہے اور وہیں اس سے سوال و جواب کا سلسلہ شروع کر دیا جائے گا۔ دراصل یہ لوگ برزخی معاملات کو حسی طور پر معلوم کرنا چاہتے ہیں۔ جب اس سے قاصر رہتے ہیں تو سرے سے برزخی حقائق کا انکار کر دیا جاتا ہے۔ (4) واضح رہے کہ فرشتے قبر میں "هٰذا الرجل" کے الفاظ سے سوال کریں گے۔ بظاہر یہ الفاظ رسول اللہ ﷺ کی تعظیم و توقیر کے خلاف ہیں۔ یہ انداز اس لیے اختیار کیا جائے گا کہ امتحان کے موقع پر قائل کے تعظیمی الفاظ سے صاحب قبر کو جواب کا اشارہ نہ مل جائے۔ بہرحال صحیح جواب دینے کا مدار قوت ایمان پر ہو گا جو صرف مومن کو حاصل ہو گی۔ والله أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1301
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1338
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1338
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1338
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:’’جب بندے کو اس کی قبر میں رکھ دیا جا تا ہے اور اس کے ساتھی دفن سے فارغ ہو کر واپس ہوتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے۔ اس وقت اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھا کر پوچھتے ہیں:تو اس شخص محمد ﷺ کے متعلق کیا اعتقاد رکھتا تھا؟ اگر وہ جواب دے:میں گواہی دیتا تھا کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں تو اسے کہا جا تاہے:تو اپنے دوزخی مقام کو دیکھ، اس کے عوض اللہ تعالیٰ نے تجھے جنت میں ٹھکانا دیا ہے۔‘‘ نبی ﷺ نے فرمایا:’’وہ دونوں مقامات کو دیکھتا ہے۔ لیکن کافر یا منافق کا یہ جواب ہوتا ہے۔ میں کچھ نہیں جانتا، جو دوسرے لوگ کہتے تھے وہی میں کہہ دیتا تھا، پھر اس سے کہا جاتا ہے:تونے عقل سے کام لیا نہ انبیاء کی پیروی کی، پھر اس کے دونوں کانوں کے درمیان لوہے کے ہتھوڑے سے ایک ضرب لگائی جاتی ہے کہ وہ چیخ اٹھتا ہے۔ اس کی چیخ پکارجن وانس کے علاوہ اس کے آس پاس کی تمام چیزیں سنتی ہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) حافظ ابن حجرؓ نے ابن منیر کے حوالے سے امام بخاری ؒ کا اس عنوان سے مقصد بایں الفاظ بیان کیا ہے کہ دفن کے آداب کا لحاظ رکھیں، شوروغل اور زمین پر زور زور سے پاؤں نہ ماریں، میت کے ساتھ وہی سلوک کریں جو سوئے ہوئے آدمی سے کیا جاتا ہے، نیز یہ دفن کے بعد سوال و جواب کے جلد شروع ہونے سے کنایہ ہے کہ دفن سے فارغ ہونے والے ابھی قریب ہی ہوتے ہیں کہ اس سے باز پرس شروع ہو جاتی ہے۔ صحیح بخاری کی حدیثِ اسماء میں یہ الفاظ ہیں:’’تمہارا علم اس شخص کے متعلق کیا تھا؟‘‘ (حدیث: 86) اور حدیث انس میں ہے کہ ’’تو دنیا میں اس شخص کے متعلق کیا کہا کرتا تھا؟‘‘ (2) ان احادیث سے بعض حضرات نے یہ مسئلہ کشید کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ قبر میں خود تشریف لاتے ہیں اور میت سے سوال جواب کے وقت آپ کو سامنے کیا جاتا ہے، حالانکہ اس سے صرف استحضار ذہنی مراد ہے، یعنی وہ نقشہ جو آدمی کے دل و دماغ میں ہوتا ہے، اس کا اظہار مقصود ہے، جیسا کہ ہرقل نے ایک دفعہ حضرت ابو سفیان ؓ سے سوال کیا تھا: ’’تم میں سے نسب کے اعتبار سے کون اس شخص کے قریب تر ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، بدءالوحي، حدیث:7) جبکہ رسول اللہ ﷺ اس مجلس میں موجود نہیں تھے۔ وہاں موجود نہ ہونے کے باوجود آپ کے لیے اشارہ قریب "هٰذا" استعمال کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ میت کا جواب بھی اس کا مؤید ہے، وہ جواب میں کہے گا کہ وہ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ سوال و جواب کے وقت رسول اللہ ﷺ کے وہاں موجود ہونے کے متعلق کتاب و سنت میں کوئی دلیل نہیں۔ اگر آپ کی شخصیت کو سامنے کر دیا جائے تو ابوجہل کے لیے تو وجودی معرفت بہت آسان ہے، کیونکہ اس نے آپ کو دیکھا ہوا ہے جبکہ آپ کے بعد آنے والے اہل ایمان کے لیے وجودی معرفت بہت مشکل ہو گی، کیونکہ انہیں تو آپ کی رؤیت حاصل نہیں ہوئی، حالانکہ معاملہ اس کے برعکس ہو گا۔ مومن کی معرفت ایمان پر موقوف ہے جس کا تعلق باطن سے ہے اور کافر وجودی معرفت کے باوجود پہچان سے قاصر رہے گا، کیونکہ اس کا دل معرفت ایمان سے خالی ہے۔ (3) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس قبر میں میت کو دفن کیا جاتا ہے سوال و جواب کا سلسلہ بھی وہیں جاری رہتا ہے، پھر راحت و عذاب کا احساس بھی اسی قبر میں ہو گا۔ بعض فتنہ پرور لوگوں نے برزخی قبر کا شاخسانہ قائم کیا ہے جس کا کتب حدیث میں کوئی ثبوت نہیں۔ جس شخص کو قبر نہ مل سکے، یعنی وہ پانی میں غرق ہو کر سمندری جانوروں کی خوراک بن گیا یا وہ جل کر راکھ ہو گیا یا کسی حادثے میں اس طرح ریزہ ریزہ ہوا کہ اس کے اجزاء نہ مل سکے ہوں تو ایسا انسان جہاں کہیں بھی پڑا ہے وہی اس کی قبر ہے اور وہیں اس سے سوال و جواب کا سلسلہ شروع کر دیا جائے گا۔ دراصل یہ لوگ برزخی معاملات کو حسی طور پر معلوم کرنا چاہتے ہیں۔ جب اس سے قاصر رہتے ہیں تو سرے سے برزخی حقائق کا انکار کر دیا جاتا ہے۔ (4) واضح رہے کہ فرشتے قبر میں "هٰذا الرجل" کے الفاظ سے سوال کریں گے۔ بظاہر یہ الفاظ رسول اللہ ﷺ کی تعظیم و توقیر کے خلاف ہیں۔ یہ انداز اس لیے اختیار کیا جائے گا کہ امتحان کے موقع پر قائل کے تعظیمی الفاظ سے صاحب قبر کو جواب کا اشارہ نہ مل جائے۔ بہرحال صحیح جواب دینے کا مدار قوت ایمان پر ہو گا جو صرف مومن کو حاصل ہو گی۔ والله أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عیاش بن ولید نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے سعید بن ابی عروبہ نے بیان کیا۔ ( دوسری سند ) امام بخاری نے کہا کہ مجھ سے خلیفہ بن خیاط نے بیان کیا‘ ان سے یزید بن زریع نے‘ ان سے سعید بن ابی عروبہ نے‘ ان سے قتادہ نے اور ان سے انس ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ آدمی جب قبر میں رکھا جاتا ہے اور دفن کرکے اس کے لوگ باگ پیٹھ موڑ کر رخصت ہوتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے۔ پھر دو فرشتے آتے ہیں، اسے بٹھاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ اس شخص ( محمد رسول اللہ ﷺ ) کے متعلق تمہارا کیا اعتقاد ہے؟ وہ جواب دیتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اس جواب پر اس سے کہا جاتا ہے کہ یہ دیکھ جہنم کا اپنا ایک ٹھکانا، لیکن اللہ تعالیٰ نے جنت میں تیرے لیے ایک مکان اس کے بدلے میں بنا دیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر اس بندہ مومن کو جنت اور جہنم دونوں دکھائی جاتی ہیں اور رہا کافریا منافق تو اس کا جواب یہ ہوتا ہے کہ مجھے معلوم نہیں‘ میں نے لوگوں کو ایک بات کہتے سنا تھا وہی میں بھی کہتا رہا۔ پھر اس سے کہا جاتا ہے کہ نہ تونے کچھ سمجھا اور نہ ( اچھے لوگوں کی ) پیروی کی۔ اس کے بعد اسے ایک لوہے کے ہتھوڑے سے بڑے زور سے مارا جاتا ہے اور وہ اتنے بھیانک طریقہ سے چیختا ہے کہ انسان اور جن کے سوا اردگرد کی تمام مخلوق سنتی ہے۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے یہ نکلا کہ ہر شخص کے لیے دو دو ٹھکانے بنے ہیں‘ ایک جنت میں اور ایک دوزخ میں اور یہ قرآن شریف سے بھی ثابت ہے کہ کافروں کے ٹھکانے جو جنت میں ہیں ان کے دوزخ میں جانے کی وجہ سے ان ٹھکانوں کو ایماندار لے لیں گے۔ قبر میں تین باتوں کا سوال ہوتا ہے من ربك۔تیرا رب کون ہے؟ مومن جواب دیتاہے ربي اللہ۔میرا رب اللہ ہے۔ پھر سوال ہوتا ہے ومادینك۔ تیرا دین کیا تھا‘ مومن کہتا ہے دیني الإسلام۔ میرا دین اسلام تھا۔ پھر پوچھا جاتا ہے کہ تیرا نبی کون ہے؟ وہ بولتا ہے نبی محمد ﷺ میرے نبی ہیں۔ ان جوابات پر اس کے لیے جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور کافر اور منافق ہر سوال کے جواب میں یہی کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں جانتا۔ جیسا لوگ کہتے رہتے تھے میں بھی کہہ دیا کرتا تھا۔ میرا کوئی دین مذہب نہ تھا۔ اس پر اس کے لیے دوزخ کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں۔ لم لادریت ولم لا تلیت۔ کے ذیل مولانا وحیدالزماں مرحوم فرماتے ہیں۔ یعنی نہ مجتہد ہوا نہ مقلد، اگر کوئی اعتراض کرے کہ مقلد تو ہوا، کیونکہ اس نے پہلے کہا کہ لوگ جیسا کہتے تھے میں نے بھی ایسا ہی کیا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تقلید کچھ کام کی نہیں کہ سنے سنائے پر ہر شخص عمل کرنے لگا۔ بلکہ تقلید کے لیے بھی غور لازم ہے کہ جس شخص کے ہم مقلد بنتے ہیں آیا وہ لائق اور فاضل اور سمجھ دار تھا یا نہیں اور دین کا علم اس کو تھا یا نہیں۔ سب باتیں بخوبی تحقیق کرنی ضروری ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas: The Prophet (ﷺ) said, "When a human being is laid in his grave and his companions return and he even hears their footsteps, two angels come to him and make him sit and ask him: What did you use to say about this man, Muhammad ? He will say: I testify that he is Allah's slave and His Apostle. Then it will be said to him, 'Look at your place in the Hell-Fire. Allah has given you a place in Paradise instead of it.' “The Prophet (ﷺ) added, "The dead person will see both his places. But a non-believer or a hypocrite will say to the angels, 'I do not know, but I used to say what the people used to say! It will be said to him, 'Neither did you know nor did you take the guidance (by reciting the Qur'an).' Then he will be hit with an iron hammer between his two ears, and he will cry and that cry will be heard by whatever approaches him except human beings and jinns".