Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: Who may get down in the grave of a woman)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1355.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا:ہم رسول اللہ ﷺ کی لخت جگر کے جنازے میں شریک ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ قبر کے پاس تشریف فر تھے۔ میں نے دیکھا کہ آپ کی آنکھیں اشکبار تھیں۔ آپ نے فرمایا:’’تم میں سے کوئی شخص ایسا ہے جو آج رات اپنی بیوی سے ہم بستر نہ ہواہو؟‘‘ حضرت ابو طلحہ ؓ نے عرض کیا:میں ہوں۔ آپ نے فرمایا :’’تم قبر میں اترو۔‘‘ چنانچہ وہ صاحبزادی کی قبر میں اترے اور انھیں لحد میں رکھا۔ عبد اللہ بن مبارک اپنے شیخ فليح کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ لم يقارف کے معنی’’جس نے گناہ نہ کیا ہو‘‘ ہیں۔ امام بخاری ؒ فرماتے ہیں کہ﴿لیقترفوا﴾ کے معنی ہیں۔’’تاکہ وہ گناہ کا کسب کریں۔‘‘
تشریح:
(1) ہمارے ہاں یہ بات مشہور ہے کہ مرنے کے بعد بیوی خاوند کا رشتہ منقطع ہو جاتا ہے، حالانکہ اسلام میں بیوی خاوند کا رشتہ اتنا کمزور نہیں کہ مرنے کے بعد ختم ہو جائے اور مرد، عورت کے لیے اجنبی بن جائے، اس لیے عورت کی میت کو اس کا خاوند قبر میں اتار سکتا ہے، جیسا کہ حضرت فاطمہ ؓ کی میت کو خود حضرت علی ؓ نے لحد میں اتارا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے خود بھی حضرت عائشہ ؓ سے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ اگر تو میری موجودگی میں فوت ہوئی تو میں تجھے غسل دوں گا اور دفن کروں گا۔ (مسند أحمد:144/6) (2) حسب ضرورت دوسرے اجنبی لوگ بھی قبر میں اتارنے کا فریضہ سرانجام دے سکتے ہیں۔ امام نووی ؒ فرماتے ہیں کہ مذکورہ حدیث ان احادیث میں سے ہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ دفن کا فریضہ صرف مرد ادا کریں گے، خواہ میت عورت ہو (المجموع:253/5 ،254، طبع دار إحیاءالتراث العربي) کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے آج تک مسلمانوں کا اسی پر عمل ہے، نیز مرد اس عمل کے لیے زیادہ قوی اور حوصلہ مند ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر خواتین ایسا کریں تو ان کے جسم کا کوئی حصہ اجنبی لوگوں کے سامنے ظاہر ہو سکتا ہے جو شرعا جائز نہیں۔ والله أعلم۔ (3) امام ابن مبارک نے اپنے شیخ کے حوالے سے لم يقارف کے جو معنی بیان کیے ہیں وہ مرجوح ہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں حضرت ابو طلحہ ؓ کیونکر یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ میں نے آج رات کوئی گناہ نہیں کیا، اگرچہ اس معنی کی تائید میں امام بخاری ؒ نے قرآنی آیت کا حوالہ بھی پیش کیا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1305
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1342
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1342
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1342
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
حضرت انس ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا:ہم رسول اللہ ﷺ کی لخت جگر کے جنازے میں شریک ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ قبر کے پاس تشریف فر تھے۔ میں نے دیکھا کہ آپ کی آنکھیں اشکبار تھیں۔ آپ نے فرمایا:’’تم میں سے کوئی شخص ایسا ہے جو آج رات اپنی بیوی سے ہم بستر نہ ہواہو؟‘‘ حضرت ابو طلحہ ؓ نے عرض کیا:میں ہوں۔ آپ نے فرمایا :’’تم قبر میں اترو۔‘‘ چنانچہ وہ صاحبزادی کی قبر میں اترے اور انھیں لحد میں رکھا۔ عبد اللہ بن مبارک اپنے شیخ فليح کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ لم يقارف کے معنی’’جس نے گناہ نہ کیا ہو‘‘ ہیں۔ امام بخاری ؒ فرماتے ہیں کہ﴿لیقترفوا﴾ کے معنی ہیں۔’’تاکہ وہ گناہ کا کسب کریں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) ہمارے ہاں یہ بات مشہور ہے کہ مرنے کے بعد بیوی خاوند کا رشتہ منقطع ہو جاتا ہے، حالانکہ اسلام میں بیوی خاوند کا رشتہ اتنا کمزور نہیں کہ مرنے کے بعد ختم ہو جائے اور مرد، عورت کے لیے اجنبی بن جائے، اس لیے عورت کی میت کو اس کا خاوند قبر میں اتار سکتا ہے، جیسا کہ حضرت فاطمہ ؓ کی میت کو خود حضرت علی ؓ نے لحد میں اتارا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے خود بھی حضرت عائشہ ؓ سے ایک مرتبہ فرمایا تھا کہ اگر تو میری موجودگی میں فوت ہوئی تو میں تجھے غسل دوں گا اور دفن کروں گا۔ (مسند أحمد:144/6) (2) حسب ضرورت دوسرے اجنبی لوگ بھی قبر میں اتارنے کا فریضہ سرانجام دے سکتے ہیں۔ امام نووی ؒ فرماتے ہیں کہ مذکورہ حدیث ان احادیث میں سے ہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ دفن کا فریضہ صرف مرد ادا کریں گے، خواہ میت عورت ہو (المجموع:253/5 ،254، طبع دار إحیاءالتراث العربي) کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے آج تک مسلمانوں کا اسی پر عمل ہے، نیز مرد اس عمل کے لیے زیادہ قوی اور حوصلہ مند ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر خواتین ایسا کریں تو ان کے جسم کا کوئی حصہ اجنبی لوگوں کے سامنے ظاہر ہو سکتا ہے جو شرعا جائز نہیں۔ والله أعلم۔ (3) امام ابن مبارک نے اپنے شیخ کے حوالے سے لم يقارف کے جو معنی بیان کیے ہیں وہ مرجوح ہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں حضرت ابو طلحہ ؓ کیونکر یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ میں نے آج رات کوئی گناہ نہیں کیا، اگرچہ اس معنی کی تائید میں امام بخاری ؒ نے قرآنی آیت کا حوالہ بھی پیش کیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن سنان نے بیان کیا‘ ان سے فلیح بن سلیمان نے بیان کیا‘ ان سے ہلال بن علی نے بیان کیا‘ ان سے انس بن مالک ؓ نے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی بیٹی کے جنازہ میں حاضر تھے۔ آنحضور ﷺ قبر پر بیٹھے ہوئے تھے‘ میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ آپ نے پوچھا کہ کیاایسا آدمی بھی کوئی یہاں ہے جو آج رات کو عورت کے پاس نہ گیا ہو۔ اس پر ابوطلحہ ؓ بولے کہ میں حاضر ہوں۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ پھر تم قبر میں اُتر جاؤ۔ انس ؓ نے کہا کہ وہ اُتر گئے اور میت کو دفن کیا۔ عبداللہ بن مبارک نے بیان کیا کہ فلیح نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ لم یقارف کا معنی یہ ہے کہ جس نے گناہ نہ کیا ہو۔ امام بخاری ؒ نے کہا کہ سورئہ انعام میں جو ﴿ لیقترفوا ﴾ آیا ہے اس کا معنی یہی ہے تاکہ گناہ کریں۔
حدیث حاشیہ:
ایک بات عجیب مشہور ہوگئی ہے کہ موت کے بعد شوہر بیوی کے لیے ایک اجنبی اور عام آدمی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا، یہ انتہائی لغو اور غلط تصور ہے۔ اسلام میں شوہر اور بیوی کا تعلق اتنا معمولی نہیں کہ وہ مرنے کے بعد ختم ہوجائے اور مرد عورت کے لیے اجنبی بن جائے۔ پس عورت کے جنازے کو خود اس کا خاوند بھی اتار سکتا ہے اور حسب ضرورت دوسرے لوگ بھی، جیسا کہ اس حدیث سے ثابت ہوا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): We were in the funeral procession of the daughter of Allah's Apostle (ﷺ) and Allah's Apostle (ﷺ) was sitting near the grave and I saw his eyes full of tears. He said, "Is there anyone amongst you who did not have sexual relations with his wife last night?" Abu Talha replied in the affirmative. And so Allah's Apostle (ﷺ) told him to get down in her grave and he got down in her grave and buried her. ________