تشریح:
1۔ صحیح بخاری کے اکثر نسخوں میں (الغُـرّ المحجلون) رفع کے ساتھ ہے جبکہ مستملی نے اصیلی کی تصریح کےمطابق اسے (الغرّ المُحجّلين) پڑھا ہے۔ اس صورت میں اس جملے کا عطف الوضوء ہو گا یعنی اس عنوان کا مقصد دو فضیلتوں کا بیان ہے: ایک وضو کی فضیلت دوسرے (الغُـرّ المحجلون) کی فضیلت وضو کی فضیلت یہ ہے کہ اس کی برکت سے چہرہ اور دیگر اعضائے وضو روشن ہوں گے اور(الغُـرّ المحجلون)کی فضیلت یہ ہے کہ یہ اس امت کا امتیازی نشان ہوگا۔ جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت سے ثابت ہے۔ (صحيح مسلم، الطهارة، حدیث: 581(247)) رفع کے ساتھ پڑھنے کی صورت میں اس کی دو توجیہات ہیں (1)۔ «أَنْتُمُ الْغُرُّ الْمُحَجَّلُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ» یہ اعراب حکایت کے طور پر ہے۔ (صحیح مسلم، الطهارة، حدیث: 579(246)) (2)۔ یہ الفاظ مبتدا اور اس کی خبر مقدم فیہ محذوف ہے یعنی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وضو کی فضیلت ثابت کرنے کے لیے صحیح مسلم کی روایت کی طرف اشارہ فرمایا کیونکہ وہ روایت ان کی شرط کے مطابق نہ تھی۔ اس وضاحت کے بعد ’’امام تدبر‘‘ کے اس اعتراض کی کیا حیثیت ہے جو انھوں نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ پر کیا ہے۔ ’’میرے نزدیک عنوان باب امام صاحب کا ایک نا تمام نوٹ ہے۔‘‘ (تدبر حدیث: 240/1)
2۔ حدیث کے آخر میں جو الفاظ ہیں کہ تم میں سے جو شخص چمک بڑھانے کی استطاعت رکھتا ہو وہ بڑھالے، یہ ارشاد نبوی ہے یا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حدیث سے استخراج؟ اس کی بابت اکثر محقق علماء اور محدثین کی رائے یہ ہے کہ یہ الفاظ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہیں جنھیں اصطلاح میں مدرج کہا جاتا ہے۔ یہ الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نہیں۔ البتہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ عمل ملتا ہے کہ وہ ہاتھوں کو کندھوں تک اور پیروں کو گھٹنوں تک دھوتے تھے لیکن یہ ان کا اجتہاد تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل نہیں تھا صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وضو کیا اور اپنے دائیں اور بائیں ہاتھ اس طرح دھوئے کہ کہنیوں سے تھوڑا اوپر تک کا حصہ اس میں شامل کیا اس طرح پیروں کو اس طرح دھویا کہ پنڈلیوں کا کچھ حصہ اس میں شامل کر لیا۔ پھر فرمایا: (هَكَذَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ. وَقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنْتُمُ الْغُرُّ الْمُحَجَّلُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ إِسْباغِ الْوُضُوءِ، فَمَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكمْ فَلْيُطِلْ غُرَّتَهُ وَتَحْجِيلَهُ» (صحیح مسلم، الطهارة، حدیث: 579(246)) ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کمال وضو کی وجہ سے قیامت کے روز تمھارے ہاتھ پاؤں اور پیشانی چمک دار ہوں گی۔ لہٰذا تم میں سے جو اپنی چمک اور سفیدی کو لمبا کر سکتا ہے تو وہ کرے ۔‘‘ اس روایت سے بھی بعض حضرات کویہ مغالطہ کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ثابت ہے۔ لیکن اس روایت میں ایسی کوئی بات نہیں ہے، اس میں صرف کہنیوں سے تھوڑا سا اوپر حصہ اور اسی طرح ٹخنوں سے تھوڑا اوپر پنڈلیوں کا حصہ شامل کیے جانے کا ذکر ہے اور اس کی بابت کہا گیا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔ اس میں کندھوں تک اور گھٹنوں تک دھونے کا ذکر نہیں ہے۔ بہر حال کندھوں اور گھٹنوں تک اعضائے وضو کو دھونا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اپنا اجتہادی عمل ہے۔ ایک اثر میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا بھی یہ عمل بتلایا گیا ہے لیکن وہ صحیح سند سے ثابت نہیں۔ تفصیل کے لیے ملا حظہ ہو۔ (أروا الغلیل: 132/1، و الضعیفة للألبانی رقم: 1003)