باب: مسجد میں علمی مذاکرہ کرنا اور فتویٰ دینا جائز ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Knowledge
(Chapter: Teaching religious knowledge and giving religious verdicts in a masjid)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
136.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، ایک شخص مسجد میں کھڑا ہوا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ! آپ ہمیں کس مقام سے احرام باندھنے کا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’اہل مدینہ ذوالحلیفہ سے، شام کے لوگ جحفه سے اور نجد کے باشندے قرن سے احرام باندھیں۔‘‘ حضرت ابن عمر ؓ نے کہا: لوگ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: ’’یمن والے یلملم سے احرام باندھیں۔‘‘ حضرت ابن عمر ؓ کہا کرتے تھے: میں رسول اللہ ﷺ سے یہ (آخری) بات اچھی طرح سمجھ نہیں سکا۔
تشریح:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کی اہمیت و مقصدیت کو بایں الفاظ بیان کیا ہے:’’مساجد بول و براز یا گندگی پھیلانے کے لیے نہیں بلکہ ان کی تعمیر کا ایک خاص مقصد ہے۔ بےشک وہ مقصد اللہ کا ذکر، نماز اور تلاوت قرآن ہے۔‘‘(صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 505(661)) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مساجد کے اغراض و مقاصد کو کلمہ حصر(إِنَّمَا) سے بیان فرمایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مساجد میں یہی کام ہو سکتے ہیں ان کے علاوہ دوسرے کسی شغل کی حیثیت مشتبہ ہو جاتی ہے خواہ وہ تعلیم وافتا ہی سے متعلق ہو۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان سے ثابت کیا ہے کہ مذکورہ حصر حقیقی نہیں بلکہ احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ مسجد میں علمی باتیں اور فتاوی وغیرہ کا شغل بھی درست ہے، بلکہ مقدمات کا فیصلہ کرنا اور دینی مباحثہ کرنا بھی جائز ہے ہاں مساجد میں دنیوی باتیں کرنا اور انھیں بازار کی حیثیت دینا کسی طرح بھی درست نہیں۔ یہ تھا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد! اب’’امام تدبر‘‘کی بھی سنیے۔ جو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی مخالفت کے لیے ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔ ’’امام صاحب ہر چیز کو نکتہ بنانے کے عادی ہیں ورنہ کس کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ علم دین اور فتوی کے لیے مسجد موزوں مقام ہے یا نہیں؟ مسجد ہی تو مسلمانوں کے دین کا مرکز ہے۔ مناسک حج کے سلسلہ کی یہ ایک اہم روایت ہے لیکن امام صاحب نے اس سے بس یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ علمی سوال مسجد میں بھی ہو سکتا ہے۔‘‘ ( تدبر حدیث: 232/1-234) امام تدبر تو اللہ کے حضور پہنچ چکے ہیں ہم ان کے تیار کردہ تلامذہ سے یہ گزارش کرتے ہیں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے مسجد میں علمی سوال کا جواز ہی ثابت نہیں کیا بلکہ کتاب الحج میں اس پر مزید تین عنوان قائم کیے ہیں۔ (1)۔ حج اور عمرہ کے لیے میقات کا تعین (صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1522) (2)۔ اہل مدینہ کا میقات (صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1525) (3)۔ اہل نجد کے لیے جائے احرام۔(صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1528) اس حدیث پر تفصیلی بحث کتاب الحج میں آئے گی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
135
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
133
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
133
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
133
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علم کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ علم، جہالت کی ضد ہے اور جہالت تاریکی کا نام جس میں واضح چیزیں بھی چھپی رہتی ہیں اور جب علم کی روشنی نمودار ہوتی ہے تو چھپی چیزیں بھی واضح ہونے لگتی ہیں۔ انھوں نے علم کی تعریف سے تعرض نہیں کیا، اس لیے کہ علم کو تعریف کی ضرورت نہیں۔عطرآں باشد کہ خود بیویدانہ کہ عطاربگوید نیز اشیاء کی حقیقت و ماہیت بیان کرنا اس کتاب کا موضوع نہیں ہے۔ایمانیات کے بعد کتاب العلم کا افتتاح کیا کیونکہ ایمان کے بعد دوسرا درجہ علم کا ہے۔اس کا ارشاد کلام الٰہی سے بھی ملتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:(يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ)( المجادلۃ 58۔11۔)"اللہ تعالیٰ تم میں سے اہل ایمان اور اہل علم کے درجات بلند کردے گا۔"اس آیت کریمہ میں پہلے اہل ایمان اور پھر اہل علم کا تذکرہ ہے چونکہ ایمان کی پابندی ہر مکلف پر سب سے پہلے عائد ہوتی ہے نیز ایمان سب سے افضل و اعلیٰ اور ہر علمی اور عملی خیر کا اساسی پتھر ہے، اس لیے علم سے پہلے ایمان کا تذکرہ ضروری تھا۔ ایمانیات کے بعد کتاب العلم لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو چیزیں ایمان میں مطلوب ہیں اور جن پر عمل کرنے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر ایمان اور علم میں ایک گہرا رشتہ بھی ہے وہ یہ کہ علم کے بغیر ایمان میں روشنی اور بالیدگی پیدا نہیں ہوتی اور نہ ایمان کے بغیر علوم و معاررف ہی لائق اعتنا ہیں۔کتاب العلم کو دیگر ابواب سے پہلے بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر ابواب کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے اور اللہ کے ہاں اس عمل کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوگا جوعلی وجہ البصیرت کیا جائے گا۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دنیاوی علوم میں مہارت پیدا کرنا کوئی پسندیدہ اور کار آمد مشغلہ نہیں کیونکہ ان کا فائدہ عارضی اور چند روز ہے۔ ان کے نزدیک اصل علم قرآن و حدیث کا علم ہے۔ پھر ان دونوں کے متعلق اللہ کی عطا کردہ فہم و فراست ہے کیونکہ ایسے معارف کا نفع مستقل اور پائیدار ہے پھر اگر اس علم کو اخلاص و عمل سے آراستہ کر لیا جائے تو آخرت میں ذریعہ نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اکثریت کے متعلق بایں الفاظ شکوہ کیا ہے:(يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ)"وہ تو دنیا وی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں۔اور اخروی معاملات سے تو بالکل ہی بے خبر ہیں۔"( الروم :30۔7۔)اس بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب العلم میں حقیقی علم کی اہمیت و حیثیت ،افادیت ،علم حدیث، اس کے آداب وفضائل ، اس کی حدود و شرائط ، آداب تحمل حدیث ،آداب تحدیث ، صیغ ادا، رحلات علمیہ، کتابت حدیث،آداب طالب ، آداب شیخ ، فتوی ، آداب فتوی اور ان کے علاوہ بے شمار علمی حقائق و معارف کو بیان کیا ہے جن کی مکمل تفصیل اس تمہیدی گفتگو میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ آئندہ صفحات میں موقع و محل کے مطابق ایسے علمی جواہرات کی وضاحت کی جائے گی۔ قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ ان تمہیدی گزارشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب العلم کا مطالعہ کریں۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، ایک شخص مسجد میں کھڑا ہوا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ! آپ ہمیں کس مقام سے احرام باندھنے کا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’اہل مدینہ ذوالحلیفہ سے، شام کے لوگ جحفه سے اور نجد کے باشندے قرن سے احرام باندھیں۔‘‘ حضرت ابن عمر ؓ نے کہا: لوگ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: ’’یمن والے یلملم سے احرام باندھیں۔‘‘ حضرت ابن عمر ؓ کہا کرتے تھے: میں رسول اللہ ﷺ سے یہ (آخری) بات اچھی طرح سمجھ نہیں سکا۔
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کی اہمیت و مقصدیت کو بایں الفاظ بیان کیا ہے:’’مساجد بول و براز یا گندگی پھیلانے کے لیے نہیں بلکہ ان کی تعمیر کا ایک خاص مقصد ہے۔ بےشک وہ مقصد اللہ کا ذکر، نماز اور تلاوت قرآن ہے۔‘‘(صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 505(661)) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مساجد کے اغراض و مقاصد کو کلمہ حصر(إِنَّمَا) سے بیان فرمایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مساجد میں یہی کام ہو سکتے ہیں ان کے علاوہ دوسرے کسی شغل کی حیثیت مشتبہ ہو جاتی ہے خواہ وہ تعلیم وافتا ہی سے متعلق ہو۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان سے ثابت کیا ہے کہ مذکورہ حصر حقیقی نہیں بلکہ احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ مسجد میں علمی باتیں اور فتاوی وغیرہ کا شغل بھی درست ہے، بلکہ مقدمات کا فیصلہ کرنا اور دینی مباحثہ کرنا بھی جائز ہے ہاں مساجد میں دنیوی باتیں کرنا اور انھیں بازار کی حیثیت دینا کسی طرح بھی درست نہیں۔ یہ تھا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد! اب’’امام تدبر‘‘کی بھی سنیے۔ جو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی مخالفت کے لیے ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔ ’’امام صاحب ہر چیز کو نکتہ بنانے کے عادی ہیں ورنہ کس کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ علم دین اور فتوی کے لیے مسجد موزوں مقام ہے یا نہیں؟ مسجد ہی تو مسلمانوں کے دین کا مرکز ہے۔ مناسک حج کے سلسلہ کی یہ ایک اہم روایت ہے لیکن امام صاحب نے اس سے بس یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ علمی سوال مسجد میں بھی ہو سکتا ہے۔‘‘ ( تدبر حدیث: 232/1-234) امام تدبر تو اللہ کے حضور پہنچ چکے ہیں ہم ان کے تیار کردہ تلامذہ سے یہ گزارش کرتے ہیں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے مسجد میں علمی سوال کا جواز ہی ثابت نہیں کیا بلکہ کتاب الحج میں اس پر مزید تین عنوان قائم کیے ہیں۔ (1)۔ حج اور عمرہ کے لیے میقات کا تعین (صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1522) (2)۔ اہل مدینہ کا میقات (صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1525) (3)۔ اہل نجد کے لیے جائے احرام۔(صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1528) اس حدیث پر تفصیلی بحث کتاب الحج میں آئے گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم کو لیث بن سعد نے خبر دی، ان سے نافع مولیٰ عبداللہ بن عمر بن الخطاب نے، انھوں نے عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت کیا کہ (ایک مرتبہ) ایک آدمی نے مسجد میں کھڑے ہو کر عرض کیا، یا رسول اللہ! آپ ہمیں کس جگہ سے احرام باندھنے کا حکم دیتے ہیں؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، مدینہ والے ذوالحلیفه سے احرام باندھیں، اور اہل شام جحفه سے اور نجد والے قرن منازل سے۔ ابن عمر ؓ نے فرمایا، کہ لوگوں کا خیال ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یمن والے یلملم سے احرام باندھیں۔ اور ابن عمر ؓ کہا کرتے تھے کہ مجھے یہ (آخری جملہ) رسول اللہ ﷺ سے یاد نہیں۔
حدیث حاشیہ:
مسجد میں سوال کیا گیا اور مسجد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا۔ اس سے ثابت ہوا کہ مساجد کو دارالحدیث کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Nafi (RA): 'Abdullah bin 'Umar said: "A man got up in the mosque and said: O Allah's Apostle (ﷺ) 'At which place you order us that we should assume the Ihram?' Allah's Apostle (ﷺ) replied, 'The residents of Madinah should assure the Ihram from Dhil-Hulaifa, the people of Syria from Al-Ju,hfa and the people of Najd from Qarn." Ibn 'Umar (RA) further said, "The people consider that Allah's Apostle (ﷺ) had also said, 'The residents of Yemen should assume Ihram from Yalamlam.' " Ibn 'Umar (RA) used to say, "I do not: remember whether Allah's Apostle (ﷺ) had said the last statement or not?"