باب: کہ میت کو کسی خاص وجہ سے قبر یا لحد سے باہر نکالا جا سکتا ہے؟
)
Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: Can the dead body be taken out of its grave)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1363.
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی کے پاس آئے جبکہ اسے قبر میں داخل کردیا گیا تھا۔ آپ نے اسے نکالنے کا حکم دیا۔ چنانچہ اسے باہر نکالا گیا۔ آپ نے اسے اپنے گھٹنوں پررکھ لیا اور اس کے منہ میں اپنا لعاب مبارک ڈالا، نیز اسے اپنی قمیص پہنائی۔ ویسے تو اس کی وجہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے، البتہ اس نے حضرت عباس ؓ کو اپنی قمیص پہنائی تھی۔ ابو ہارون کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بدن پر دوقمیصیں تھیں اور عبد اللہ بن عبد اللہ بن ابی ؓ نے عرض کیا:اللہ کے رسول اللہ ﷺ !میرے باپ کو نیچے والی قمیص پہنائیں جو آپ کے بدن سے لگ چکی ہے۔ سفیان نےکہا:لوگوں کے خیال کے مطابق نبی ﷺ نے رئیس المنافقین عبد اللہ کو قمیص بدلہ چکانے کے لیے پہنائی تھی، کیونکہ اس نے حضرت عباس ؓ کو پہنائی تھی۔
تشریح:
(1) ایک حدیث میں ہے کہ غزوہ بدر کے موقع پر جب جنگی قیدیوں کو مدینہ منورہ لایا گیا تو رسول اللہ ﷺ کے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب کا بدن ننگا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے دیکھا تو رئیس المنافقین کی قمیص ان کے قد کے مطابق پوری تھی تو آپ نے اس کی قمیص حضرت عباس ؓ کو پہنا دی۔ جب وہ فوت ہوا تو آپ نے اس کا احسان چکانے کے لیے اپنی قمیص اسے پہنا دی۔ (صحیح البخاري، الجھادوالسیر، حدیث:3008) (2) امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے یہ مسئلہ ثابت کیا ہے کہ بوقت ضرورت میت کو قبر سے نکالا جا سکتا ہے، جبکہ بعض حضرات کا خیال ہے کہ اگر میت کو غسل یا جنازہ کے بغیر دفن کیا گیا ہو تو اسے غسل دینے اور جنازہ پڑھنے کے لیے نکالا جا سکتا ہے۔ امام بخاری ؒ نے ان حضرات کی تردید فرما دی ہے کہ ان اسباب کے علاوہ بھی اگر ضرورت ہو تو قبر سے میت کو نکالنے میں کوئی حرج نہیں۔ (فتح الباري:274/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1313
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1350
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1350
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1350
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی کے پاس آئے جبکہ اسے قبر میں داخل کردیا گیا تھا۔ آپ نے اسے نکالنے کا حکم دیا۔ چنانچہ اسے باہر نکالا گیا۔ آپ نے اسے اپنے گھٹنوں پررکھ لیا اور اس کے منہ میں اپنا لعاب مبارک ڈالا، نیز اسے اپنی قمیص پہنائی۔ ویسے تو اس کی وجہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے، البتہ اس نے حضرت عباس ؓ کو اپنی قمیص پہنائی تھی۔ ابو ہارون کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بدن پر دوقمیصیں تھیں اور عبد اللہ بن عبد اللہ بن ابی ؓ نے عرض کیا:اللہ کے رسول اللہ ﷺ !میرے باپ کو نیچے والی قمیص پہنائیں جو آپ کے بدن سے لگ چکی ہے۔ سفیان نےکہا:لوگوں کے خیال کے مطابق نبی ﷺ نے رئیس المنافقین عبد اللہ کو قمیص بدلہ چکانے کے لیے پہنائی تھی، کیونکہ اس نے حضرت عباس ؓ کو پہنائی تھی۔
حدیث حاشیہ:
(1) ایک حدیث میں ہے کہ غزوہ بدر کے موقع پر جب جنگی قیدیوں کو مدینہ منورہ لایا گیا تو رسول اللہ ﷺ کے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب کا بدن ننگا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے دیکھا تو رئیس المنافقین کی قمیص ان کے قد کے مطابق پوری تھی تو آپ نے اس کی قمیص حضرت عباس ؓ کو پہنا دی۔ جب وہ فوت ہوا تو آپ نے اس کا احسان چکانے کے لیے اپنی قمیص اسے پہنا دی۔ (صحیح البخاري، الجھادوالسیر، حدیث:3008) (2) امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے یہ مسئلہ ثابت کیا ہے کہ بوقت ضرورت میت کو قبر سے نکالا جا سکتا ہے، جبکہ بعض حضرات کا خیال ہے کہ اگر میت کو غسل یا جنازہ کے بغیر دفن کیا گیا ہو تو اسے غسل دینے اور جنازہ پڑھنے کے لیے نکالا جا سکتا ہے۔ امام بخاری ؒ نے ان حضرات کی تردید فرما دی ہے کہ ان اسباب کے علاوہ بھی اگر ضرورت ہو تو قبر سے میت کو نکالنے میں کوئی حرج نہیں۔ (فتح الباري:274/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا‘ عمرو نے کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ ؓ سے سنا‘ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو عبداللہ بن ابی ( منافق ) کو اس کی قبر میں ڈالا جاچکا تھا۔ لیکن آپ ﷺ کے ارشاد پر اسے قبر سے نکال لیا گیا۔ پھر آپ ﷺ نے اسے اپنے گھٹنوں پر رکھ کر لعاب دہن اس کے منہ میں ڈالا اور اپنا کرتہ اسے پہنایا۔ اب اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ ( غالباً مرنے کے بعد ایک منافق کے ساتھ اس احسان کی وجہ یہ تھی کہ ) انہوں نے حضرت عباس ؓ کو ایک قمیص پہنائی تھی ( غزوئہ بدر میں جب حضرت عباس ؓ مسلمانوں کے قیدی بن کر آئے تھے ) سفیان نے بیان کیا کہ ابوہارون موسیٰ بن ابی عیسیٰ کہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کے استعمال میں دو کرتے تھے۔ عبداللہ کے لڑکے ( جو مومن مخلص تھے ؓ ) نے کہا کہ یا رسول اللہ! میرے والد کو آپ وہ قمیص پہنا دیجئے جو آپ کے جسداطہر کے قریب رہتی ہے۔ سفیان نے کہا لوگ سمجھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے اپنا کرتہ اس کے کرتے کے بدل پہنا دیا جو اس نے حضرت عباس ؓ کو پہنایا تھا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir bin ' Abdullah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) came to Abdullah bin Ubai (a hypocrite) after his death and he has been laid in his pit (grave). He ordered (that he be taken out of the grave) and he was taken out. Then he placed him on his knees and threw some of his saliva on him and clothed him in his (the Prophet's) own shirt. Allah knows better (why he did so). 'Abdullah bin Ubai had given his shirt to Al-Abbas to wear. Abu Harun said, "Allah's Apostle (ﷺ) at that time had two shirts and the son of 'Abdullah bin Ubai said to him, 'O Allah's Apostle (ﷺ) ! Clothe my father in your shirt which has been in contact with your skin.' ' Sufyan added, "Thus people think that the Prophet (ﷺ) clothed 'Abdullah bin Tubal in his shirt in lieu of what he (Abdullah) had done (for Al Abbas, the Prophet's uncle.)" ________