تشریح:
(1) حضرت جابر بن سمرہ ؓ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک ایسا آدمی لایا گیا جس نے برچھی سے خود کو قتل کر لیا تھا تو آپ نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی تھی، (صحیح مسلم، الجنائز، حدیث:2262(978)) لیکن سنن نسائی کی روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’میں تو اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھتا۔‘‘ (سنن النسائي، الجنائز، حدیث:1966) لیکن آپ نے اپنے صحابہ کرام ؓ کو اس سے نہیں روکا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اثرورسوخ رکھنے والے علماء اور مقتدا حضرات اس کی نماز جنازہ نہ پڑھیں تاکہ دوسروں کو اس سے عبرت حاصل ہو، کیونکہ ہمارے پاس اب اسے سزا اور تنبیہ کے لیے اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ امام بخاری ؒ کا یہی رجحان معلوم ہوتا ہے۔ (2) اسلام کے علاوہ کسی دوسرے مذہب کی قسم اٹھانے کی دو صورتیں ہیں: ٭ اگر میں نے فلاں کام کیا تو میں یہودی ہوں یا نصرانی ہوں۔ یہ ایک قسم ہے۔ اگر توڑے گا تو کفارہ دے گا۔ اگر وہ جانتے ہوئے کام کرے گا کہ وہ واقعی یہودی ہو یا نصرانی ہو جائے تو ایسی صورت میں وہ دین اسلام سے خارج قرار پائے گا۔ اگر ایسی صورت نہیں تو اس قول بد کی شناعت و قباحت تو باقی رہے گی، لیکن وہ کافر نہیں ہو گا۔ ٭ اس دوسری ملت کی قسم اٹھائے کہ مجھے یہودیت یا نصرانیت کی قسم کہ ایسا کام کروں گا، اس وقت یہ قول جھوٹ پر محمول ہو گا۔ اس سے وہ کافر نہیں ہو گا، کیونکہ اس کے دل میں دوسرے مذہب کی تعظیم تو نہیں، تاہم قسم کے طور پر ایسا ایسا کہنا تعظیم پر دلالت ضرور کرتا ہے۔ والله أعلم۔