باب: سائل کو اس کے سوال سے زیادہ جواب دینا‘(تا کہ اسے تفصیلی معلومات ہوجائیں)
)
Sahi-Bukhari:
Knowledge
(Chapter: Whosoever answered the questioner more than what was asked)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
137.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ہی سے روایت ہے، نبی ﷺ سے ایک شخص نے پوچھا: جو شخص احرام باندھے وہ کیا پہنے؟ آپ نے فرمایا:’’نہ کُرتا، نہ پگڑی، نہ پاجامہ، نہ ٹوپی اور نہ وہ کپڑا جس میں ورس یا زعفران لگی ہو۔ اور اگر جوتی نہ ہو تو موزے پہن لے اور انہیں اوپر سے کاٹ لے تاکہ وہ ٹخنوں سے نیچے ہو جائیں۔‘‘
تشریح:
1۔ حافظ ابن حجر، ابن المنیر کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جو عنوان قائم کیا ہے اس سے مقصود یہ ہے کہ جواب کا سوال کے حرف بحرف مطابق ہونا ضروری نہیں بلکہ اگر سوال میں کسی خاص سبب کا ذکر ہے تو جواب میں بیان کیے گئے حکم کا عام ہونا جائز ہے۔ اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ اگر کوئی سائل مفتی سے کسی مخصوص واقعے کے متعلق سوال کرے اور مفتی کو اندیشہ ہو کہ سائل اس جواب سے کوئی غلط فائدہ اٹھا سکتا ہے تو جواب میں اختصار کا طریقہ اختیار نہ کرے بلکہ ایسی تفصیل پیش کرے جس میں دوسرے معنی کا سدباب ہو جائے جیسا کہ حدیث میں جوتا نہ ملنے کی صورت میں موزے پہننے کا حکم ہے۔ سائل نے آپ سے اختیاری حالت کا سوال کیا تھا آپ نے اضطراری حالت کا حکم بھی بتادیا۔ حالت سفر کے لحاظ سے یہ اضطراری حکم کوئی اجنبی چیز نہیں کیونکہ سفر کی حالت میں ایسی مشکلات پیش آسکتی ہیں نیز ارباب اصول اس بات کی صراحت کرتے ہیں کہ جواب کا سوال کے مطابق ہونا ضروری ہے۔ اس مطابقت سے یہ مراد نہیں کہ جواب کے ساتھ کسی مفید امر کا اضافہ نہ ہو۔ بلکہ مقصد یہ ہے کہ جواب میں سوال کا پورا پورا حل ہو نا چاہیے۔(فتح الباري: 304/1) 2۔ سوال یہ تھا کہ محرم کے لیے مباح ملبوسات کیا ہیں؟ لیکن جواب میں ان ملبوسات کا ذکر ہے جو محرم کے لیے ناجائز ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ممنوع ملبوسات محدود ہیں جبکہ مباح ملبوسات کی فہرست بہت طویل ہے۔ اگر انھیں بیان کیا جاتا تو جواب بھی طویل ہو جاتا، اس کے ساتھ یہ شبہ بھی پیدا ہوسکتا تھا کہ شاید یہ ملبوسات صرف محرم پہن سکتا ہے غیر محرم کے لیے ان ملبوسات کا استعمال ناجائز ہے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں وہ طریقہ اختیار فرمایا جو آسان تھا اور اس میں کسی قسم کے اشتباہ کا اندیشہ نہیں تھا۔(فتح الباري: 304/1) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ سوال سے زیادہ جواب دیا جا سکتا ہے جبکہ اس کی ضرورت ہو۔ سائل نے اپنے سوال میں اختیاری حالت کا ذکر کیا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جواب میں اختیاری حالت کے ساتھ ساتھ اضطراری حالت کا بھی ذکر کر دیا کہ دوران سفر میں جوتے نہ مل سکیں تو ننگے پاؤں چلنے کے بجائے موزے پہن لیے جائیں۔ اس میں سائل کو تنبیہ بھی ہے کہ تمھیں ان پابندیوں کے متعلق سوال کرنا چاہیے تھا جو احرام کی وجہ سے محرم پر عائد ہوتی ہیں۔ آپ کے جواب کا خلاصہ یہ ہے۔1۔سلا ہوا کپڑا استعمال نہ کیا جائے۔ 2۔اپنے سرکوکھلا رکھا جائے۔ 3۔ خوشبو استعمال نہ کی جائے۔ اس حکم میں مرد عورتیں تمام شامل ہیں۔ 4۔ پاؤں میں کھلا جوتا پہنا جائے۔ دیگر مسائل و احکام کتاب الحج میں بیان کیے جائیں گے۔ 3۔ حدیث میں مطلق طور پر رنگین کپڑوں کی ممانعت نہیں ہے جیسا کہ’’امام تدبر‘‘ نے سمجھا ہے بلکہ صرف ورس اور زعفران سے رنگے ہوئے کپڑوں کی ممانعت ہے کیونکہ یہ دونوں چیزیں خوشبودار ہیں۔ اگرانھیں اچھی طرح دھو کر خوشبو کے اثرات زائل کر دیے جائیں تو ان کے استعمال میں کوئی حرج نہیں۔ آخر میں ’’امام تدبر‘‘ نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ پر اعتراض جڑ دیا ہے کہ ’’امام صاحب کی رائے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جواب سائل کے سوال کی ضرورت سے زائد دیا ہےحالانکہ یہ بات درست نہیں۔‘‘( تدبر حدیث: 234/1) یہ اعتراض بھی اصلاحی صاحب کا خود ان کی اپنی نافہمی یا پندار علم کا نتیجہ ہے ورنہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی زیر نظر حدیث پر تبویب روز روشن کی طرح واضح ہے
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
136
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
134
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
134
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
134
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علم کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ علم، جہالت کی ضد ہے اور جہالت تاریکی کا نام جس میں واضح چیزیں بھی چھپی رہتی ہیں اور جب علم کی روشنی نمودار ہوتی ہے تو چھپی چیزیں بھی واضح ہونے لگتی ہیں۔ انھوں نے علم کی تعریف سے تعرض نہیں کیا، اس لیے کہ علم کو تعریف کی ضرورت نہیں۔عطرآں باشد کہ خود بیویدانہ کہ عطاربگوید نیز اشیاء کی حقیقت و ماہیت بیان کرنا اس کتاب کا موضوع نہیں ہے۔ایمانیات کے بعد کتاب العلم کا افتتاح کیا کیونکہ ایمان کے بعد دوسرا درجہ علم کا ہے۔اس کا ارشاد کلام الٰہی سے بھی ملتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:(يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ)( المجادلۃ 58۔11۔)"اللہ تعالیٰ تم میں سے اہل ایمان اور اہل علم کے درجات بلند کردے گا۔"اس آیت کریمہ میں پہلے اہل ایمان اور پھر اہل علم کا تذکرہ ہے چونکہ ایمان کی پابندی ہر مکلف پر سب سے پہلے عائد ہوتی ہے نیز ایمان سب سے افضل و اعلیٰ اور ہر علمی اور عملی خیر کا اساسی پتھر ہے، اس لیے علم سے پہلے ایمان کا تذکرہ ضروری تھا۔ ایمانیات کے بعد کتاب العلم لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو چیزیں ایمان میں مطلوب ہیں اور جن پر عمل کرنے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر ایمان اور علم میں ایک گہرا رشتہ بھی ہے وہ یہ کہ علم کے بغیر ایمان میں روشنی اور بالیدگی پیدا نہیں ہوتی اور نہ ایمان کے بغیر علوم و معاررف ہی لائق اعتنا ہیں۔کتاب العلم کو دیگر ابواب سے پہلے بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر ابواب کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے اور اللہ کے ہاں اس عمل کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوگا جوعلی وجہ البصیرت کیا جائے گا۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دنیاوی علوم میں مہارت پیدا کرنا کوئی پسندیدہ اور کار آمد مشغلہ نہیں کیونکہ ان کا فائدہ عارضی اور چند روز ہے۔ ان کے نزدیک اصل علم قرآن و حدیث کا علم ہے۔ پھر ان دونوں کے متعلق اللہ کی عطا کردہ فہم و فراست ہے کیونکہ ایسے معارف کا نفع مستقل اور پائیدار ہے پھر اگر اس علم کو اخلاص و عمل سے آراستہ کر لیا جائے تو آخرت میں ذریعہ نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اکثریت کے متعلق بایں الفاظ شکوہ کیا ہے:(يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ)"وہ تو دنیا وی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں۔اور اخروی معاملات سے تو بالکل ہی بے خبر ہیں۔"( الروم :30۔7۔)اس بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب العلم میں حقیقی علم کی اہمیت و حیثیت ،افادیت ،علم حدیث، اس کے آداب وفضائل ، اس کی حدود و شرائط ، آداب تحمل حدیث ،آداب تحدیث ، صیغ ادا، رحلات علمیہ، کتابت حدیث،آداب طالب ، آداب شیخ ، فتوی ، آداب فتوی اور ان کے علاوہ بے شمار علمی حقائق و معارف کو بیان کیا ہے جن کی مکمل تفصیل اس تمہیدی گفتگو میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ آئندہ صفحات میں موقع و محل کے مطابق ایسے علمی جواہرات کی وضاحت کی جائے گی۔ قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ ان تمہیدی گزارشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب العلم کا مطالعہ کریں۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ہی سے روایت ہے، نبی ﷺ سے ایک شخص نے پوچھا: جو شخص احرام باندھے وہ کیا پہنے؟ آپ نے فرمایا:’’نہ کُرتا، نہ پگڑی، نہ پاجامہ، نہ ٹوپی اور نہ وہ کپڑا جس میں ورس یا زعفران لگی ہو۔ اور اگر جوتی نہ ہو تو موزے پہن لے اور انہیں اوپر سے کاٹ لے تاکہ وہ ٹخنوں سے نیچے ہو جائیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ حافظ ابن حجر، ابن المنیر کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جو عنوان قائم کیا ہے اس سے مقصود یہ ہے کہ جواب کا سوال کے حرف بحرف مطابق ہونا ضروری نہیں بلکہ اگر سوال میں کسی خاص سبب کا ذکر ہے تو جواب میں بیان کیے گئے حکم کا عام ہونا جائز ہے۔ اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ اگر کوئی سائل مفتی سے کسی مخصوص واقعے کے متعلق سوال کرے اور مفتی کو اندیشہ ہو کہ سائل اس جواب سے کوئی غلط فائدہ اٹھا سکتا ہے تو جواب میں اختصار کا طریقہ اختیار نہ کرے بلکہ ایسی تفصیل پیش کرے جس میں دوسرے معنی کا سدباب ہو جائے جیسا کہ حدیث میں جوتا نہ ملنے کی صورت میں موزے پہننے کا حکم ہے۔ سائل نے آپ سے اختیاری حالت کا سوال کیا تھا آپ نے اضطراری حالت کا حکم بھی بتادیا۔ حالت سفر کے لحاظ سے یہ اضطراری حکم کوئی اجنبی چیز نہیں کیونکہ سفر کی حالت میں ایسی مشکلات پیش آسکتی ہیں نیز ارباب اصول اس بات کی صراحت کرتے ہیں کہ جواب کا سوال کے مطابق ہونا ضروری ہے۔ اس مطابقت سے یہ مراد نہیں کہ جواب کے ساتھ کسی مفید امر کا اضافہ نہ ہو۔ بلکہ مقصد یہ ہے کہ جواب میں سوال کا پورا پورا حل ہو نا چاہیے۔(فتح الباري: 304/1) 2۔ سوال یہ تھا کہ محرم کے لیے مباح ملبوسات کیا ہیں؟ لیکن جواب میں ان ملبوسات کا ذکر ہے جو محرم کے لیے ناجائز ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ممنوع ملبوسات محدود ہیں جبکہ مباح ملبوسات کی فہرست بہت طویل ہے۔ اگر انھیں بیان کیا جاتا تو جواب بھی طویل ہو جاتا، اس کے ساتھ یہ شبہ بھی پیدا ہوسکتا تھا کہ شاید یہ ملبوسات صرف محرم پہن سکتا ہے غیر محرم کے لیے ان ملبوسات کا استعمال ناجائز ہے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں وہ طریقہ اختیار فرمایا جو آسان تھا اور اس میں کسی قسم کے اشتباہ کا اندیشہ نہیں تھا۔(فتح الباري: 304/1) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ سوال سے زیادہ جواب دیا جا سکتا ہے جبکہ اس کی ضرورت ہو۔ سائل نے اپنے سوال میں اختیاری حالت کا ذکر کیا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جواب میں اختیاری حالت کے ساتھ ساتھ اضطراری حالت کا بھی ذکر کر دیا کہ دوران سفر میں جوتے نہ مل سکیں تو ننگے پاؤں چلنے کے بجائے موزے پہن لیے جائیں۔ اس میں سائل کو تنبیہ بھی ہے کہ تمھیں ان پابندیوں کے متعلق سوال کرنا چاہیے تھا جو احرام کی وجہ سے محرم پر عائد ہوتی ہیں۔ آپ کے جواب کا خلاصہ یہ ہے۔1۔سلا ہوا کپڑا استعمال نہ کیا جائے۔ 2۔اپنے سرکوکھلا رکھا جائے۔ 3۔ خوشبو استعمال نہ کی جائے۔ اس حکم میں مرد عورتیں تمام شامل ہیں۔ 4۔ پاؤں میں کھلا جوتا پہنا جائے۔ دیگر مسائل و احکام کتاب الحج میں بیان کیے جائیں گے۔ 3۔ حدیث میں مطلق طور پر رنگین کپڑوں کی ممانعت نہیں ہے جیسا کہ’’امام تدبر‘‘ نے سمجھا ہے بلکہ صرف ورس اور زعفران سے رنگے ہوئے کپڑوں کی ممانعت ہے کیونکہ یہ دونوں چیزیں خوشبودار ہیں۔ اگرانھیں اچھی طرح دھو کر خوشبو کے اثرات زائل کر دیے جائیں تو ان کے استعمال میں کوئی حرج نہیں۔ آخر میں ’’امام تدبر‘‘ نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ پر اعتراض جڑ دیا ہے کہ ’’امام صاحب کی رائے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جواب سائل کے سوال کی ضرورت سے زائد دیا ہےحالانکہ یہ بات درست نہیں۔‘‘( تدبر حدیث: 234/1) یہ اعتراض بھی اصلاحی صاحب کا خود ان کی اپنی نافہمی یا پندار علم کا نتیجہ ہے ورنہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی زیر نظر حدیث پر تبویب روز روشن کی طرح واضح ہے
ع،دیدہ کو رکو کیاآئے نظر، کیا دیکھے؟
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا ان کو ابن ابی ذئب نے نافع کے واسطے سے خبر دی، وہ عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت کرتے ہیں، وہ رسول اللہ ﷺ سے اور (دوسری سند میں) زہری سالم سے، کہا وہ ابن عمر ؓ سے، وہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ ﷺ سے پوچھا کہ احرام باندھنے والے کو کیا پہننا چاہیے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہ قمیص پہنے نہ صافہ باندھے اور نہ پاجامہ اور نہ کوئی سرپوش اوڑھے اور نہ کوئی زعفران اور ورس سے رنگا ہوا کپڑا پہنے اور اگر جوتے نہ ملیں تو موزے پہن لے اور انھیں (اس طرح) کاٹ دے کہ ٹخنوں سے نیچے ہو جائیں۔
حدیث حاشیہ:
ورس ایک قسم کی خوشبودار گھاس ہوتی ہے۔ حج کا احرام باندھنے کے بعد اس کا استعمال جائز نہیں۔ سائل نے سوال تومختصر سا کیا تھا، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تفصیل کے ساتھ اس کو جواب دیا، تاکہ جواب نامکمل نہ رہ جائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ استاد کو مسائل کی تفصیل میں فیاضی سے کام لینا چاہئیے تاکہ طلباءکے لیے کوئی گوشہ تشنہ تکمیل نہ رہ جائے۔ الحمدللہ کہ آج عشرہ اول ربیع الثانی 1387ھ میں کتاب العلم کے ترجمہ وحواشی سے فراغت حاصل ہوئی، اس سلسلہ میں بوجہ کم علمی کے خادم سے جو لغزش ہوگئی ہو اللہ تعالیٰ اسے معاف فر مائے۔ ربنا لاعلم لنا إلا ماعلمتنا إنك أنت العلیم الحکیم۔ رب اشرح لي صدری ویسر لي أمری- آمین یا أرحم الراحمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA): A man asked the Prophet (ﷺ) : "What (kinds of clothes) should a Muhrim (a Muslim intending to perform 'Umra or Hajj) wear? He replied, "He should not wear a shirt, a turban, trousers, a head cloak or garment scented with saffron or Wars (kinds of perfumes). And if he has n slippers, then he can use Khuffs (leather socks) but the socks should be cut short so as to make the ankles bare." (See Hadith No. 615, Vol. 2).