تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ایک اصل کوثابت کرتے ہیں کہ جب کوئی عمل یقین و اعتماد سے شروع کیا گیا ہو تو جب تک اس کی جانب مخالف میں بھی یقین کی کیفیت پیدا نہ ہو جائے، اس وقت تک وہ عمل قائم رکھا جائے گا، صرف تردد اور شک سے اس عمل میں نقصان نہیں آنا چاہیے۔ اس سلسلے میں انھوں نے ایک خاص واقعے کا حوالہ دیا ہے کہ ایک شخص کو دوران نماز میں وضو ٹوٹنے کا اندیشہ ہوجاتا ہے تو ایسے شخص کو اس وقت تک نماز پڑھتے رہنا چاہیے جب تک اسے نقض وضو کے متعلق اس درجے کا یقین نہ ہو جس درجے کا یقین وضو کے متعلق تھا کیونکہ صرف وسوسے اور شبہے کی وجہ سے نماز ختم کرنا درست نہیں۔ ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ کی روایت میں ہے کہ جب شیطان دل میں اس طرح کا وسوسہ ڈالے تودل ہی دل میں شیطان کے اس وسوسے کی تکذیب کردے۔ صحیح ابن خزیمہ میں ہے کہ اگر ناک سے اس کی بدبو محسوس کرے یا کان سے اس کی آواز سنے تو نماز کوختم کردے۔ (عمدة القاري: 358/2)
2۔ علامہ خطابی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بے وضو ہونے کا حکم صرف اس بات پر موقوف نہیں کہ وہ اس کی آواز سنے یا بدبو پائے کیونکہ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہوا کے خروج کا یقین ہوتا ہے لیکن نہ اس کی آواز سنی جاتی ہے اور نہ اس کی بو ہی کا احساس ہوتا ہے، مثلاً: ایک آدمی بہرا ہے یا مرض زکام کی وجہ سے اس کی قوت شامہ مفلوج ہوچکی ہے جس کی بنا پر وہ آواز یا بو کا احساس نہیں کر پاتا، ایسی صورت میں اسے وضو کرنا ہوگا کیونکہ اسے بے وضو ہونے کایقین ہوچکا ہے۔ (عمدة القاري: 359/2)
3۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے:(باب من لم ير الوساوس ونحوها من الشبهات) ’’وساوس کو شبہات کی بنیاد نہیں بنانا چاہیے۔‘‘ (صحیح البخاري، البیوع، باب: 5) لہٰذا اس حدیث سے یہ قاعدہ بھی معلوم ہوا کہ کوئی یقینی معاملہ صرف شک کی وجہ سے مشکوک نہیں ہوتا اور نہ معاملات کو وساوس کی وجہ سے شبہات ہی میں تبدیل کرنا درست ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی چیزکو بلاوجہ شک وشبہ کی نظر سے دیکھنا جائز نہیں۔ واللہ أعلم۔