تشریح:
(1) اس حدیث سے عذاب قبر ثابت ہوتا ہے جو کفار و منافقین کو دیا جائے گا۔ اگر اللہ چاہے تو نافرمان اہل ایمان کو بھی عذاب قبر سے دوچار کر سکتا ہے، لیکن سوال و جواب اہل ایمان اور کفار دونوں سے ہوں گے۔ ابوداود میں اس حدیث کا سبب ورود بھی بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺ بنو نجار کے ایک نخلستان میں داخل ہوئے تو آپ نے ایک خوفناک آواز سنی جس سے آپ کو گھبراہٹ ہوئی۔ آپ نے دریافت فرمایا: ’’ان قبروں میں کون دفن ہیں؟‘‘ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! دور جاہلیت میں جو لوگ مر گئے تھے وہ ان میں دفن ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’عذاب قبر اور فتنہ دجال سے اللہ کی پناہ مانگو۔‘‘ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! عذاب قبر کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’مومن کو جب قبر میں دفن کر دیا جاتا ہے۔۔‘‘ (سنن أبي داود، السنة، حدیث:4751) ابوداود ہی کی اس روایت میں ہے کہ سوال و جواب کے وقت میت میں اعادہ روح ہوتا ہے۔ (سنن أبي داود، السنة، حدیث:4753) اس پر بعض حضرات نے اعتراض کیا ہے کہ ایسا کرنے سے تین دفعہ زندگی اور تین دفعہ موت واقع ہو گی جو قرآن کی صریح نص کے خلاف ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ﴾ (المؤمن11:40) ’’کافر کہیں گے: ہمارے پروردگار! تو نے دو دفعہ ہمیں مارا اور دو دفعہ زندہ کیا۔‘‘ حافظ ابن حجر ؒ نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ مذکورہ اعادہ روح صرف سوال و جواب کے لیے ہے۔ یہ مستقل زندگی نہیں جو کہ اسے جسم کے ساتھ روح کے قائم ہونے سے حاصل ہوئی تھی۔ یہ ایک عارضی زندگی ہے۔ اس کے بعد اس روح کو اس کے مستقر میں پہنچا دیا جاتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ مومن کی روح کو پرندے کی شکل میں چھوڑ دیا جاتا ہے وہ جنت کے درختوں سے کھاتی پیتی ہے۔ (مسندأحمد:455/3) (3) یہ اعادہ روح برزخ کے اعتبار سے ہے۔ دنیاوی لحاظ سے اس پر میت کے احکام جاری ہوتے ہیں۔ اس کے متعلق ہم پہلے تفصیل سے لکھ آئے ہیں۔