Sahi-Bukhari
23. Funerals (Al-Janaa'iz)
84. Chapter: It is disliked to offer the funeral prayer for the hypocrites, and to ask Allah's Forgiveness for the Mushrikun
باب: منافقوں پر نماز جنازہ پڑھنا اور مشرکوں کے لیے طلب مغفرت کرنا ناپسند ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: It is disliked to offer the funeral prayer for the hypocrites, and to ask Allah's Forgiveness for the Mushrikun)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اس کو عبداللہ بن عمر ؓ عنہما نے نبی کریمﷺسے روایت کیا ہے۔
1379.
حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے،انھوں نےفرمایا:جب عبداللہ بن ابی ابن سلول مرا تو رسول اللہ ﷺ کو اس کی نماز جنازہ پڑھنے کے لیے دعوت دی گئی۔ جب رسول اللہ ﷺ نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو میں آپ کی طرف تیزی سے کود پڑا اور عرض کیا:اے اللہ کے رسول ﷺ ! کیا آپ عبداللہ بن ابی کی نماز جنازہ پڑھیں گے، حالانکہ اس نے فلاں فلاں روزایسا بکواس کیاتھا؟میں اسکی باتیں شمار کرنے لگا۔ رسول اللہ ﷺ نے مسکر اکر فرمایا:’’عمر ؓ !تم یہاں سے ایک طرف ہٹ جاؤ۔‘‘ جب میں زیادہ اصرار کرنے لگا تو آپ ﷺ نے فرمایا:’’مجھے اختیار دیاگیا ہے، لہذا میں نے استغفار کرنا اختیار کیا ہے۔ اگر مجھے علم ہو کہ میرے ستر سے زیادہ مرتبہ استغفار کرنے سے اللہ اسے معاف کردے گا تو میں ستر سے زیادہ مرتبہ اس کے لیے استغفار کرلوں گا۔‘‘ راوی کہتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسکی نماز جنازہ پڑھی اور واپس تشریف لے آئے۔ ابھی چند لمحات ہی ٹھہرنے پائے ہوں گے کہ سورہ توبہ کی یہ دو آیات نازل ہوئیں: ’’اے حبیب! جب کوئی ان منافقین سے مرجائے، اس پر کبھی نماز جنازہ نہ پڑھیں۔۔۔‘‘ اس واقعہ کو بیان کرنے کے بعد حضرت عمر ؓ نے فرمایا: مجھے بعد میں تعجب ہواکہ کس طرح اس دن رسول اللہ ﷺ کے حضور میں نےایسی جراءت کی تھی۔ حالانکہ اللہ اور اس کے رسول ( ﷺ) (ہرمصلحت کو) خوب جانتے ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1327
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1366
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1366
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1366
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
تمہید باب
اس روایت کو امام بخاری رحمہ اللہ نے خود متصل سند سے بیان کیا ہے اور یہ حدیث پہلے گزر چکی ہے۔ (صحیح البخاری،الجنائز،حدیث:1269)
اس کو عبداللہ بن عمر ؓ عنہما نے نبی کریمﷺسے روایت کیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے،انھوں نےفرمایا:جب عبداللہ بن ابی ابن سلول مرا تو رسول اللہ ﷺ کو اس کی نماز جنازہ پڑھنے کے لیے دعوت دی گئی۔ جب رسول اللہ ﷺ نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو میں آپ کی طرف تیزی سے کود پڑا اور عرض کیا:اے اللہ کے رسول ﷺ ! کیا آپ عبداللہ بن ابی کی نماز جنازہ پڑھیں گے، حالانکہ اس نے فلاں فلاں روزایسا بکواس کیاتھا؟میں اسکی باتیں شمار کرنے لگا۔ رسول اللہ ﷺ نے مسکر اکر فرمایا:’’عمر ؓ !تم یہاں سے ایک طرف ہٹ جاؤ۔‘‘ جب میں زیادہ اصرار کرنے لگا تو آپ ﷺ نے فرمایا:’’مجھے اختیار دیاگیا ہے، لہذا میں نے استغفار کرنا اختیار کیا ہے۔ اگر مجھے علم ہو کہ میرے ستر سے زیادہ مرتبہ استغفار کرنے سے اللہ اسے معاف کردے گا تو میں ستر سے زیادہ مرتبہ اس کے لیے استغفار کرلوں گا۔‘‘ راوی کہتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسکی نماز جنازہ پڑھی اور واپس تشریف لے آئے۔ ابھی چند لمحات ہی ٹھہرنے پائے ہوں گے کہ سورہ توبہ کی یہ دو آیات نازل ہوئیں: ’’اے حبیب! جب کوئی ان منافقین سے مرجائے، اس پر کبھی نماز جنازہ نہ پڑھیں۔۔۔‘‘ اس واقعہ کو بیان کرنے کے بعد حضرت عمر ؓ نے فرمایا: مجھے بعد میں تعجب ہواکہ کس طرح اس دن رسول اللہ ﷺ کے حضور میں نےایسی جراءت کی تھی۔ حالانکہ اللہ اور اس کے رسول ( ﷺ) (ہرمصلحت کو) خوب جانتے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
اس کے متعلق حضرت ابن عمر ؓ نے نبی اکرمﷺ سے روایت کی ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحیٰی بن بکیر نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا‘ ان سے عقیل نے‘ ان سے ابن شہاب نے‘ ان سے عبید اللہ بن عبداللہ نے‘ ان سے ابن عباس نے اور ان سے عمر بن خطاب ؓ نے فرمایا کہ جب عبداللہ بن ابی ابن سلول مراتو رسول اللہ ﷺ سے اس پر نماز جنازہ کے لیے کہا گیا۔ نبی کریم ﷺ جب اس ارادے سے کھڑے ہوئے تو میں نے آپ کی طرف بڑھ کر عرض کیا یا رسول اللہ! آپ ابن ابی کی نماز جنازہ پڑھاتے ہیں، حالانکہ اس نے فلاں دن فلاں بات کہی تھی اور فلاں دن فلاں بات۔ میں اس کی کفر کی باتیں گننے لگا۔ لیکن رسول اللہ ﷺ یہ سن کر مسکرا دئیے اور فرمایا عمر! اس وقت پیچھے ہٹ جاؤ۔ لیکن جب میں بار بار اپنی بات دہراتا رہا تو آپ نے مجھے فرمایا کہ مجھے اللہ کی طرف سے اختیار دے دیا گیا ہے‘ میں نے نماز پڑھانی پسند کی اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ ستر مرتبہ سے زیادہ مرتبہ اس کے لیے مغفرت مانگنے پر اسے مغفرت مل جائے گی تو اس کے لیے اتنی ہی زیادہ مغفرت مانگوں گا۔ حضرت عمر ؓ نے بیان کیا کہ آنحضرت ﷺ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی اور واپس ہونے کے تھوڑی دیر بعد آپ پر سورئہ براءة کی دو آیتیں نازل ہوئیں۔ ’’کسی بھی منافق کی موت پر اس کی نماز جنازہ آپ ہرگز نہ پڑھائیے۔‘‘ آیت وھُم فاسِقونَ تک اور اس کی قبر پر بھی مت کھڑا ہو، ان لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کی باتوں کو نہیں مانا اور مرے بھی تونا فرمان رہ کر۔ حضرت عمر ؓ نے بیان کیا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ کے حضور اپنی اسی دن کی دلیری پر تعجب ہوتا ہے۔ حالانکہ اللہ اور اس کے رسول ( ہر مصلحت کو ) زیادہ جانتے ہیں۔