تشریح:
(1) صحیح مسلم میں ہے کہ انصار کا ایک بچہ فوت ہوا تو حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ اس کے لیے تو جنت کی بشارت ہے، کیونکہ اس نے کوئی برا کام نہیں کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس کے علاوہ کا بھی امکان ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جنت کے لیے اس کی اہلیت رکھنے والوں ہی کو پیدا کیا ہے۔ (صحیح مسلم، القدر، حدیث:6768(2662)) اس حدیث کے پیش نظر بعض حضرات کا موقف ہے کہ مسلمانوں کی نابالغ اولاد کے متعلق توقف اختیار کیا جائے۔ لیکن امام بخاری ؒ نے اس روایت کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں مسلمانوں کی اولاد کا اپنے والدین کو جنت میں داخل کرنے کا ذکر ہے، چنانچہ حضرت علی ؓ مرفوعا بیان کرتے ہیں کہ مسلمان اور ان کی اولاد جنت میں ہو گی اور مشرکین اپنی اولاد سمیت جہنم میں ہوں گے، پھر یہ آیتِ کریمہ تلاوت فرمائی: ﴿وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُم بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ﴾ (الطّور21:52) ’’اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے ایمان لانے میں ان کا اتباع کیا تو ہم ان کی اولاد کو ان کے ساتھ ملا دیں گے۔‘‘ (مجمع الزوائد ومنبع الفوائد:439/7، رقم:11940، طبع دارالفکر) (2) حضرت عائشہ ؓ سے مروی حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اس معاملے میں جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیے یا مسلمانوں کی اولاد کے متعلق آپ کو اس کے بعد مطلع کیا گیا کہ ان کا ٹھکانا جنت ہو گا۔ پیش کردہ روایت سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے، کیونکہ جو کسی کے جنت میں جانے کا سبب ہو گا وہ خود بھی جنت میں جائے گا۔ (فتح الباري:310/3)