تشریح:
(1) اس حدیث پر باب بلا عنوان ہے، گویا عنوان سابق کا تکملہ اور تتمہ ہے۔ (2) اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ لوگ مشرک ہوں یا مومن ان کی نابالغ اولاد جنت میں ہو گی، کیونکہ اس حدیث میں فرشتوں نے وضاحت کی ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کے ارد گرد بیٹھے ہوئے بچے لوگوں کی نابالغ اولاد ہے۔ لوگوں کی اولاد کا لفظ عام ہے جو مشرکین کی اولاد کو بھی شامل ہے۔ اس میں کسی کی تخصیص نہیں۔ امام بخاری ؒ نے اس روایت کو كتاب التعبير میں بایں الفاظ بیان کیا ہے: ’’وہ بچے جو آپ نے حضرت ابراہیم ؑ کے گرد دیکھے تھے، وہ تھے جنہیں فطرت پر موت آئی تھی۔‘‘ صحابہ میں سے کسی نے کہا اللہ کے رسول! مشرکین کی اولاد بھی، آپ نے فرمایا: ’’مشرکین کی اولاد بھی ان میں شامل ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، التعبیر، حدیث:7047) اس روایت میں صراحت ہے کہ مشرکین کی وہ اولاد جو بلوغ سے پہلے مر گئی، ان کی موت فطرت پر تھی اور رسول اللہ ﷺ نے انہیں جنت میں دیکھا تھا۔ اس سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ مشرکین کے بچے بھی مسلمانوں کے بچوں کی طرح جنت میں ہوں گے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس موقف کی تائید میں چند ایک روایات بھی پیش کی ہیں۔ حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے اپنے رب سے سوال کیا کہ اولاد آدم میں سے جو بے خبر ہیں انہیں عذاب میں مبتلا نہ کرنا۔ اللہ تعالیٰ نے میری اس دعا کو قبول کر لیا ہے۔‘‘ (مسند أبي یعلیٰ:397/3، رقم:4087، طبع دارالکتب العلمیة، بیروت) روایت میں وضاحت ہے کہ ’’بےخبر‘‘ سے مراد معصوم بچے ہیں۔ خنساء بنت معاویہ اپنی پھوپھی سے بیان کرتی ہیں، انہوں نے کہا، میں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ جنت میں کون ہوں گے؟ تو آپ نے فرمایا: ’’انبیاء، شہداء اور نومولود بچے جنت میں ہوں گے۔‘‘ (سنن أبي داود، الجھاد، حدیث:2521) ان دونوں احادیث کی اسناد حسن ہیں۔ (فتح الباري:312/3)