تشریح:
1۔ مکمل وضو سے مراد وہ وضو ہے جس میں تمام فرائض و واجبات اورآداب و سنن کا خیال رکھا گیا ہو۔ دوسرے الفاظ میں مرات کے اعتبار سے تثلیث اور عمل کے لحاظ سے اعضائے وضو کو خوب مل کر دھونا ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اسباغ کی تفسیر انقاء سے کی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اعضائے وضو کو خوب مل کر دھونا چاہیے تاکہ وہ اچھی طرح صاف ہو جائیں۔ اس سے اسراف سے اجتناب کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے کیونکہ مقصد انقاء اور صفائی ہے۔ تکرار اتنی نہیں ہونی چاہیے کہ اسراف کی حد میں پہنچ جائے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی اس تعلیق کو مصنف عبدالرزاق میں موصولاً بیان کیا گیا ہے۔ ان کے متعلق مروی ہے کہ اپنے پاؤں کو سات مرتبہ دھویا کرتے تھے۔ (الأوسط لإبن المنذر، حدیث: 401) کیونکہ اہل عرب عام احوال میں ننگے پاؤں رہنے کے عادی تھے، اس لیے پاؤں کا دیگر اعضاء کے مقابلے میں زیادہ میلا ہو جانا ایک طبعی چیز ہے۔ (فتح الباري: 316/1)
2۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے وضو کے بعد نماز ادا نہیں کی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہمیشہ باوضو رہنے کے عادی تھے۔ اس سے ان حضرات کی بھی تردید ہوتی ہے جو اس وضو سے استنجا مراد لیتے ہیں کیونکہ دوسری روایت میں ہے کہ میں دوران وضو میں آپ کے اعضاء شریفہ پر پانی ڈالتا تھا، نیز مسند امام احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمزم کے پانی سے وضو فرمایا۔ (زوائد مسند أحمد: 76/1) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زمزم کا پانی پینے کے علاوہ دوسرے کاموں میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ (فتح الباري: 316/1) اس حدیث سے متعلقہ دیگر مباحث كتاب الحج میں بیان ہوں گے۔