صحیح بخاری
4. کتاب: وضو کے بیان میں
3. باب: وضو کی فضیلت کے بیان میں(اور ان لوگوں کی فضیلت میں)جو(قیامت کے دن)وضوکے نشانات سے سفید پیشانی اور سفید ہاتھ پاؤں والے ہوں گے۔
Sahi-Bukhari
4. Ablutions (Wudu')
3. Chapter: Chapter. The Superiority Of Ablution. And Al-ghurr-ul-muhajjalun (the Parts Of The Body Of The Muslims Washed In Ablution Will Shine On The Day Of Ressurrection And The Angels Will Call Them By That Name) From The Traces Of Ablution
باب: وضو کی فضیلت کے بیان میں(اور ان لوگوں کی فضیلت میں)جو(قیامت کے دن)وضوکے نشانات سے سفید پیشانی اور سفید ہاتھ پاؤں والے ہوں گے۔
)
Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: Chapter. The Superiority Of Ablution. And Al-ghurr-ul-muhajjalun (the Parts Of The Body Of The Muslims Washed In Ablution Will Shine On The Day Of Ressurrection And The Angels Will Call Them By That Name) From The Traces Of Ablution)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
139.
حضرت ابوہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے: ’’میری امت کے لوگ قیامت کے دن بلائے جائیں گے جبکہ وضو کے نشانات کی وجہ سے ان کی پیشانیاں اور ہاتھ پاؤں چمکتے ہوں گے۔ اب جو کوئی تم میں سے اپنی چمک بڑھانا چاہے تو اسے بڑھائے۔‘‘
تشریح:
1۔ صحیح بخاری کے اکثر نسخوں میں (الغُـرّ المحجلون) رفع کے ساتھ ہے جبکہ مستملی نے اصیلی کی تصریح کےمطابق اسے (الغرّ المُحجّلين) پڑھا ہے۔ اس صورت میں اس جملے کا عطف الوضوء ہو گا یعنی اس عنوان کا مقصد دو فضیلتوں کا بیان ہے: ایک وضو کی فضیلت دوسرے (الغُـرّ المحجلون) کی فضیلت وضو کی فضیلت یہ ہے کہ اس کی برکت سے چہرہ اور دیگر اعضائے وضو روشن ہوں گے اور(الغُـرّ المحجلون)کی فضیلت یہ ہے کہ یہ اس امت کا امتیازی نشان ہوگا۔ جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت سے ثابت ہے۔ (صحيح مسلم، الطهارة، حدیث: 581(247)) رفع کے ساتھ پڑھنے کی صورت میں اس کی دو توجیہات ہیں (1)۔ «أَنْتُمُ الْغُرُّ الْمُحَجَّلُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ» یہ اعراب حکایت کے طور پر ہے۔ (صحیح مسلم، الطهارة، حدیث: 579(246)) (2)۔ یہ الفاظ مبتدا اور اس کی خبر مقدم فیہ محذوف ہے یعنی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وضو کی فضیلت ثابت کرنے کے لیے صحیح مسلم کی روایت کی طرف اشارہ فرمایا کیونکہ وہ روایت ان کی شرط کے مطابق نہ تھی۔ اس وضاحت کے بعد ’’امام تدبر‘‘ کے اس اعتراض کی کیا حیثیت ہے جو انھوں نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ پر کیا ہے۔ ’’میرے نزدیک عنوان باب امام صاحب کا ایک نا تمام نوٹ ہے۔‘‘ (تدبر حدیث: 240/1) 2۔ حدیث کے آخر میں جو الفاظ ہیں کہ تم میں سے جو شخص چمک بڑھانے کی استطاعت رکھتا ہو وہ بڑھالے، یہ ارشاد نبوی ہے یا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حدیث سے استخراج؟ اس کی بابت اکثر محقق علماء اور محدثین کی رائے یہ ہے کہ یہ الفاظ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہیں جنھیں اصطلاح میں مدرج کہا جاتا ہے۔ یہ الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نہیں۔ البتہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ عمل ملتا ہے کہ وہ ہاتھوں کو کندھوں تک اور پیروں کو گھٹنوں تک دھوتے تھے لیکن یہ ان کا اجتہاد تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل نہیں تھا صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وضو کیا اور اپنے دائیں اور بائیں ہاتھ اس طرح دھوئے کہ کہنیوں سے تھوڑا اوپر تک کا حصہ اس میں شامل کیا اس طرح پیروں کو اس طرح دھویا کہ پنڈلیوں کا کچھ حصہ اس میں شامل کر لیا۔ پھر فرمایا: (هَكَذَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ. وَقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنْتُمُ الْغُرُّ الْمُحَجَّلُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ إِسْباغِ الْوُضُوءِ، فَمَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكمْ فَلْيُطِلْ غُرَّتَهُ وَتَحْجِيلَهُ» (صحیح مسلم، الطهارة، حدیث: 579(246)) ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کمال وضو کی وجہ سے قیامت کے روز تمھارے ہاتھ پاؤں اور پیشانی چمک دار ہوں گی۔ لہٰذا تم میں سے جو اپنی چمک اور سفیدی کو لمبا کر سکتا ہے تو وہ کرے ۔‘‘ اس روایت سے بھی بعض حضرات کویہ مغالطہ کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ثابت ہے۔ لیکن اس روایت میں ایسی کوئی بات نہیں ہے، اس میں صرف کہنیوں سے تھوڑا سا اوپر حصہ اور اسی طرح ٹخنوں سے تھوڑا اوپر پنڈلیوں کا حصہ شامل کیے جانے کا ذکر ہے اور اس کی بابت کہا گیا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔ اس میں کندھوں تک اور گھٹنوں تک دھونے کا ذکر نہیں ہے۔ بہر حال کندھوں اور گھٹنوں تک اعضائے وضو کو دھونا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اپنا اجتہادی عمل ہے۔ ایک اثر میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا بھی یہ عمل بتلایا گیا ہے لیکن وہ صحیح سند سے ثابت نہیں۔ تفصیل کے لیے ملا حظہ ہو۔ (أروا الغلیل: 132/1، و الضعیفة للألبانی رقم: 1003)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
138
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
136
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
136
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
136
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
حضرت ابوہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے: ’’میری امت کے لوگ قیامت کے دن بلائے جائیں گے جبکہ وضو کے نشانات کی وجہ سے ان کی پیشانیاں اور ہاتھ پاؤں چمکتے ہوں گے۔ اب جو کوئی تم میں سے اپنی چمک بڑھانا چاہے تو اسے بڑھائے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ صحیح بخاری کے اکثر نسخوں میں (الغُـرّ المحجلون) رفع کے ساتھ ہے جبکہ مستملی نے اصیلی کی تصریح کےمطابق اسے (الغرّ المُحجّلين) پڑھا ہے۔ اس صورت میں اس جملے کا عطف الوضوء ہو گا یعنی اس عنوان کا مقصد دو فضیلتوں کا بیان ہے: ایک وضو کی فضیلت دوسرے (الغُـرّ المحجلون) کی فضیلت وضو کی فضیلت یہ ہے کہ اس کی برکت سے چہرہ اور دیگر اعضائے وضو روشن ہوں گے اور(الغُـرّ المحجلون)کی فضیلت یہ ہے کہ یہ اس امت کا امتیازی نشان ہوگا۔ جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت سے ثابت ہے۔ (صحيح مسلم، الطهارة، حدیث: 581(247)) رفع کے ساتھ پڑھنے کی صورت میں اس کی دو توجیہات ہیں (1)۔ «أَنْتُمُ الْغُرُّ الْمُحَجَّلُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ» یہ اعراب حکایت کے طور پر ہے۔ (صحیح مسلم، الطهارة، حدیث: 579(246)) (2)۔ یہ الفاظ مبتدا اور اس کی خبر مقدم فیہ محذوف ہے یعنی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وضو کی فضیلت ثابت کرنے کے لیے صحیح مسلم کی روایت کی طرف اشارہ فرمایا کیونکہ وہ روایت ان کی شرط کے مطابق نہ تھی۔ اس وضاحت کے بعد ’’امام تدبر‘‘ کے اس اعتراض کی کیا حیثیت ہے جو انھوں نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ پر کیا ہے۔ ’’میرے نزدیک عنوان باب امام صاحب کا ایک نا تمام نوٹ ہے۔‘‘ (تدبر حدیث: 240/1) 2۔ حدیث کے آخر میں جو الفاظ ہیں کہ تم میں سے جو شخص چمک بڑھانے کی استطاعت رکھتا ہو وہ بڑھالے، یہ ارشاد نبوی ہے یا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حدیث سے استخراج؟ اس کی بابت اکثر محقق علماء اور محدثین کی رائے یہ ہے کہ یہ الفاظ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہیں جنھیں اصطلاح میں مدرج کہا جاتا ہے۔ یہ الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نہیں۔ البتہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ عمل ملتا ہے کہ وہ ہاتھوں کو کندھوں تک اور پیروں کو گھٹنوں تک دھوتے تھے لیکن یہ ان کا اجتہاد تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل نہیں تھا صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وضو کیا اور اپنے دائیں اور بائیں ہاتھ اس طرح دھوئے کہ کہنیوں سے تھوڑا اوپر تک کا حصہ اس میں شامل کیا اس طرح پیروں کو اس طرح دھویا کہ پنڈلیوں کا کچھ حصہ اس میں شامل کر لیا۔ پھر فرمایا: (هَكَذَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ. وَقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنْتُمُ الْغُرُّ الْمُحَجَّلُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ إِسْباغِ الْوُضُوءِ، فَمَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكمْ فَلْيُطِلْ غُرَّتَهُ وَتَحْجِيلَهُ» (صحیح مسلم، الطهارة، حدیث: 579(246)) ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کمال وضو کی وجہ سے قیامت کے روز تمھارے ہاتھ پاؤں اور پیشانی چمک دار ہوں گی۔ لہٰذا تم میں سے جو اپنی چمک اور سفیدی کو لمبا کر سکتا ہے تو وہ کرے ۔‘‘ اس روایت سے بھی بعض حضرات کویہ مغالطہ کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ثابت ہے۔ لیکن اس روایت میں ایسی کوئی بات نہیں ہے، اس میں صرف کہنیوں سے تھوڑا سا اوپر حصہ اور اسی طرح ٹخنوں سے تھوڑا اوپر پنڈلیوں کا حصہ شامل کیے جانے کا ذکر ہے اور اس کی بابت کہا گیا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔ اس میں کندھوں تک اور گھٹنوں تک دھونے کا ذکر نہیں ہے۔ بہر حال کندھوں اور گھٹنوں تک اعضائے وضو کو دھونا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اپنا اجتہادی عمل ہے۔ ایک اثر میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا بھی یہ عمل بتلایا گیا ہے لیکن وہ صحیح سند سے ثابت نہیں۔ تفصیل کے لیے ملا حظہ ہو۔ (أروا الغلیل: 132/1، و الضعیفة للألبانی رقم: 1003)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، ان سے لیث نے خالد کے واسطے سے نقل کیا، وہ سعید بن ابی ہلال سے نقل کرتے ہیں، وہ نعیم المجمر سے، وہ کہتے ہیں کہ میں (ایک مرتبہ) ابوہریرہ ؓ کے ساتھ مسجد کی چھت پر چڑھا۔ تو آپ نے وضو کیا اور کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا تھا کہ آپ ﷺ فرمارہے تھے کہ میری امت کے لوگ وضو کے نشانات کی وجہ سے قیامت کے دن سفید پیشانی اور سفید ہاتھ پاؤں والوں کی شکل میں بلائے جائیں گے۔ تو تم میں سے جو کوئی اپنی چمک بڑھانا چاہتا ہے تو وہ بڑھا لے (یعنی وضو اچھی طرح کرے)۔
حدیث حاشیہ:
جو اعضاءوضومیں دھوئے جاتے ہیں قیامت میں وہ سفید اور روشن ہوں گے، ان ہی کو"غرا محجلین" کہا گیا ہے۔ چمک بڑھانے کا مطلب یہ کہ ہاتھوں کو مونڈھوں تک اور پاؤں کو گھٹنے تک دھوئے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بعض دفعہ ایسا ہی کیا کرتے تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Nu'am Al-Mujmir: Once I went up the roof of the mosque, along with Abu Hurairah (RA) . He perform ablution and said, "I heard the Prophet (ﷺ) saying, "On the Day of Resurrection, my followers will be called "Al-Ghurr-ul-Muhajjalun" from the trace of ablution and whoever can increase the area of his radiance should do so (i.e. by performing ablution regularly).' "