تشریح:
(1) حضرت ابوذر غفاری ؓ اپنے زہد و تقویٰ کی وجہ سے دنیا کے مال و متاع کے متعلق بہت شدید موقف رکھتے تھے، مگر دیگر صحابہ کرام ؓ نے ان کے موقف سے اتفاق نہیں کیا، نہ اس کے متعلق ان سے کوئی تعرض کرنا پسند کیا۔ ان کی بزرگ شخصیت کے پیش نظر لوگ خواہ مخواہ ان کے پاس جمع ہو جاتے۔ حضرت معاویہ ؓ نے یہ محسوس کیا کہ مبادا کوئی فتنہ و فساد کھڑا ہو جائے، ان سے الجھنے کے بجائے خلیفہ سوم حضرت عثمان ؓ کو ان کے متعلق خط لکھا، انہوں نے وہاں سے مدینہ بلا بھیجا تو فورا سمع و طاعت کرتے ہوئے مدینہ چلے آئے۔ مدینہ آئے تو شام سے بھی زیادہ ان کے پاس لوگ جمع ہونے لگے۔ حضرت عثمان ؓ کو بھی وہی اندیشہ لاحق ہوا جو حضرت معاویہ ؓ کو ہوا تھا، انہیں اپنے پاس بلا کر سمجھایا، لیکن وہ اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور کہنے لگے کہ مجھے ربذہ جانے کی اجازت دیجیے۔ وہ اس مقام پر رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں آتے جاتے تھے۔ پھر آپ وہیں چلے گئے اور تادم وفات وہیں مقیم رہے۔ آپ کی قبر بھی اسی جگہ پر ہے۔ (2) حضرت ابوذر ؓ نے وضاحت فرمائی کہ میں خارجی نہیں ہوں، اپنے سر سے کپڑا اتار کر دکھایا کہ ان کی علامت تو سر منڈوانا ہے، میں تو خلیفہ وقت کی اطاعت کو فرض سمجھتا ہوں۔ اگر وہ مجھے کھڑا رہنے کا حکم دیں تو میں کبھی نہیں بیٹھوں گا۔ اہل کوفہ نے آپ کو اشتعال دلانے کی بہت کوشش کی، لیکن ناکام رہے۔ آپ ہمیشہ انہیں یہی جواب دیتے کہ اگر حضرت عثمان ؓ مجھے مشرق سے مغرب تک چلنے کا حکم دیں تو میں ان کی اطاعت کروں گا۔ حضرت عثمان ؓ نے حضرت ابوذر ؓ کو جو حکم دیا تو اس میں مصلحت یہ تھی کہ اگر وہ مدینہ میں رہیں گے تو ان کے پاس بکثرت لوگ آئیں گے اور متنازعہ مسئلہ میں ان سے اسی شدت کا اثر لیں گے، اس لیے آپ نے انہیں ربذہ جانے کی اجازت دے دی۔ (فتح الباري:346/3)