تشریح:
(1) مسند احمد کی روایت میں ہے کہ احنف بن قیس نے کہا: میں نے ایک صاحب دیکھے جنہیں لوگ پسند نہیں کرتے، بلکہ انہیں دیکھ کر ہی وہاں سے بھاگ جاتے ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا: آپ کون ہیں؟ انہوں نے فرمایا: میں ابوذر ہوں۔ میں نے عرض کیا کہ لوگ آپ سے کیوں دور بھاگتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: میں انہیں اس خزانے سے منع کرتا ہوں جس سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا تھا۔ (مسندأحمد:164/5) (2) حضرت ابوذر ؓ کے نزدیک حاجت اصلیہ کے علاوہ کسی بھی چیز کا ذخیرہ کرنا حرام ہے۔ آپ کا یہ وصف وجوب پر نہیں بلکہ اولویت پر محمول ہو گا، کیونکہ مال جمع کرنے والا اگرچہ اس کی زکاۃ بھی دے، تاہم قیامت کے دن اس کے متعلق حساب تو دینا ہی پڑے گا، اس لیے بہتر ہے کہ جو آئے اسے اللہ کی راہ میں خرچ کر ڈالے، مگر اس قدر بھی افراط سے کام نہ لے جو قرآنی آیت کی خلاف ورزی ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَّحْسُورًا ﴿٢٩﴾) (بن إسرائیل29:17) ’’اتنے بھی ہاتھ کشادہ نہ کرو کہ تمہیں شرمندہ اور عاجز ہو کر بیٹھنا پڑے۔‘‘ اس حدیث کے متعلق دیگر فوائد کتاب الرقاق، حدیث: 6445 میں ذکر ہوں گے۔ إن شاءاللہ