تشریح:
(1) یہ طعنہ زنی اور مذاق کرنے والے کم بخت منافق لوگ تھے۔ انہیں کسی طرح بھی چین نہیں آتا تھا۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ نے آٹھ ہزار درہم صدقہ کیا تو انہیں ریاکار کہنے لگے اور ابو عقیل ؓ نے محنت مزدوری کر کے ایک صاع کھجور بطور صدقہ دی تو ان سے مذاق کرنے لگے کہ اللہ تعالیٰ کو اس کی کیا ضرورت ہے! انہیں معلوم نہیں کہ اللہ کے ہاں مقدار نہیں بلکہ معیار کی قدروقیمت ہے۔ وہاں تو دل کا اخلاص دیکھا جاتا ہے، اس کی موجودگی میں ایک صاع کھجور بھی بہت ہے۔ (2) حدیث میں آیت صدقہ سے مراد درج ذیل ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۖ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ ۗ وَاللَّـهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿١٠٣﴾) (التوبة103:9) ’’(اے نبی!) آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے اور ان کے اموال کو پاک کیجیے، اور ان کا بھی تزکیہ کیجئے، پھر ان کے لیے دعا کیجیے۔ بےشک آپ کی دعا ان کے لیے باعث تسکین ہے۔ اور اللہ خوب سننے والا، خوب جاننے والا ہے۔‘‘ (فتح الباري:358/3)