قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الزَّكَاةِ (بَابُ لاَ صَدَقَةَ إِلَّا عَنْ ظَهْرِ غِنًى)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَمَنْ تَصَدَّقَ وَهُوَ مُحْتَاجٌ، أَوْ أَهْلُهُ مُحْتَاجٌ، أَوْ عَلَيْهِ دَيْنٌ، فَالدَّيْنُ أَحَقُّ أَنْ يُقْضَى مِنَ الصَّدَقَةِ، وَالعِتْقِ وَالهِبَةِ، وَهُوَ رَدٌّ عَلَيْهِ لَيْسَ لَهُ أَنْ يُتْلِفَ أَمْوَالَ النَّاسِ» وَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: «مَنْ أَخَذَ أَمْوَالَ النَّاسِ يُرِيدُ إِتْلاَفَهَا، أَتْلَفَهُ اللَّهُ» إِلَّا أَنْ يَكُونَ مَعْرُوفًا بِالصَّبْرِ، فَيُؤْثِرَ عَلَى نَفْسِهِ وَلَوْ كَانَ بِهِ خَصَاصَةٌ «كَفِعْلِ أَبِي بَكْرٍ ؓ،» حِينَ تَصَدَّقَ بِمَالِهِ «وَكَذَلِكَ آثَرَ الأَنْصَارُ المُهَاجِرِينَ وَنَهَى النَّبِيُّ ﷺعَنْ إِضَاعَةِ المَالِ» فَلَيْسَ لَهُ أَنْ يُضَيِّعَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِعِلَّةِ الصَّدَقَةِ " وَقَالَ كَعْبُ بْنُ مَالِكٍ ؓ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ مِنْ تَوْبَتِي أَنْ أَنْخَلِعَ مِنْ مَالِي صَدَقَةً إِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولهِﷺ، قَالَ: «أَمْسِكْ عَلَيْكَ بَعْضَ مَالِكَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ»، قُلْتُ: فَإِنِّي أُمْسِكُ سَهْمِي الَّذِي بِخَيْبَرَ

1428. وَعَنْ وُهَيْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا

مترجم:

ترجمۃ الباب:

‏‏‏‏ اور جو شخص خیرات کرے کہ خود محتاج ہو جائے یا اس کے بال بچے محتاج ہوں (تو ایسی خیرات درست نہیں) اسی طرح اگر قرضدار ہو تو صدقہ اور آزادی اور ہبہ پر قرض ادا کرنا مقدم ہو گا اور اس کا صدقہ اس پر پھیر دیا جائے گا اور اس کو یہ درست نہیں کہ (قرض نہ ادا کرے اور خیرات دے کر) لوگوں (قرض خواہوں) کی رقم تباہ کر دے اور نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ جو شخص لوگوں کا مال (بطور قرض) تلف کرنے (یعنی نہ دینے) کی نیت سے لے تو اللہ اس کو برباد کر دے گا۔ البتہ اگر صبر اور تکلیف اٹھانے میں مشہور ہو تو اپنی خاص حاجت پر (فقیر کی حاجت کو) مقدم کر سکتا ہے۔ جیسے ابوبکر صدیقؓ نے اپنا سارا مال خیرات میں دے دیا اور اسی طرح انصار نے اپنی ضرورت پر مہاجرین کی ضروریات کو مقدم کیا۔ اور نبی کریمﷺنے مال کو تباہ کرنے سے منع فرمایا ہے تو جب اپنا مال تباہ کرنا منع ہوا تو پرائے لوگوں کا مال تباہ کرنا کسی طرح سے جائز نہ ہو گا۔ اور کعب بن مالک نے (جو جنگ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے) عرض کی یا رسول اللہ! میں اپنی توبہ کو اس طرح پورا کرتا ہوں کہ اپنا سارا مال اللہ اور رسول پر تصدق کر دوں۔ آپ ﷺنے فرمایا کہ نہیں کچھ تھوڑا مال رہنے بھی دے وہ تیرے حق میں بہتر ہے۔ کعب نے کہا بہت خوب میں اپنا خیبر کا حصہ رہنے دیتا ہوں حضرت امام بخاری  نے اس باپ میں احادیث نبوی اور آثار صحابہ کی روشنی میں بہت سے اہم امور متعلق صدقہ خیرات پر روشنی ڈالی ہے جن کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کے لیے صدقہ خیرات کرنا اسی وقت بہتر ہو گا جب وہ شرعی حدود کو مد نظر رکھے اگر ایک شخص کے اہل و عیال خود ہی محتاج ہیں یا وہ دوسرں کا مقروض ہے پھر ان حالات میں بھی وہ صدقہ کرے اور نہ یہ اہل و عیال کا خیال رکھے نہ دوسرں کا قرض ادا کرے تو وہ خیرات اس کے لئے باعث اجر نہ ہوگی بلکہ وہ ایک طرح دوسروں کی حق تلفی کرنا اور جن کو دینا ضروری تھا ان کی رقم کو تلف کرنا ضروری تھا ارشاد نبوی ہے من اخذ اموال الناس يريد اتلافها كا یہی منشاہے ہاں صبر ایثار الگ چیز ہے ۔ اگر کوئی حضرت ابوبکر صدیقؓ جیسا صابر و شاکر مسلمان ہو اور انصار جیسا ایثار پیشہ ہو تو اس کے لئے زیادہ سے زیادہ ایثار پیش کرنا جائز ہو گا مگر آج کل ایسی مثالیں تلاش کرنا بے کار ہے جبکہ آج کل ایسے اشخاص ناپید ہو چکے ہیں ۔ حضرت کعب بن مالک ؓ وہ بزرگ ترین جلیل القدر صحابی ہیں جو جنگ تبوک میں پیچھے رہ گئے تھے بعد جب ان کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انہوں نے اپنی تو بہ کے لئے اپنا سارا مال فی سبیل اللہ دے دینے کا خیال ظاہر کیا آنحضرت ﷺ نے سارے مال کو فی سبیل اللہ دینے سے منع فرمایا ہے تو انہوں نے اپنی جائداد خیبر کو بچا لیا ‘ باقی کو خیرات کردیا اس سے بھی اندازہ لگانا چاہیے کہ قرآن و حدیث کی یہ غرض ہر گز نہیں کہ کو ئی بھی مسلمان اپنے اہل و عیال سے بے نیاز ہو کر اپنی جائداد فی سبیل اللہ بخش دے اور وارثین کو محتاج مفلس کر کے دنیا سے جائے ۔ ایسا ہر گز نہ ہونا چاہیے کہ یہ وارثین کی حق تلفی ہوگی امیر المؤمنین فی الحدیث سیدنا امام بخاری  کا یہی منشائے باب ہے ۔

1428.

حضرت وہیب سے روایت ہے، وہ ہشام سے بیان کر تے ہیں، انھوں نے اپنے باپ سے اور وہ حضرت ابوہریرہ ؓ  سے مذکورہ (سابقہ) روایت بیان کرتے ہیں۔