تشریح:
(1) امام بخاری ؒ کی پیش کردہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عنوان میں نفی جنس (ذات) نہیں، بلکہ نفی کمال ہے، یعنی انسان کے لیے بہتر یہ ہے کہ صدقہ کرنے کے بعد اس کے پاس اتنا مال ضرور ہو جس سے اس کی اور اس کے اہل و عیال کی ضروریات پوری ہو سکیں۔ صدقے کے بعد صاحب صدقہ کے لیے مالداری باقی رہے۔ اس مالداری کی دو قسمیں ہیں: ایک تو دل کی تونگری اور مالداری باقی رہے۔ جیسا کہ حضرت ابوبکر ؓ نے اسی قوت قلب کی وجہ سے اپنے کلی توکل کا اظہار کیا تھا۔ یا پھر مالی غنا باقی رہے جس سے وہ اپنی ضروریات کو پورا کر سکے۔ (2) امام بخاری ؒ نے مذکورہ احادیث کی روشنی میں یہ رہنمائی فرمائی ہے کہ انسان کے لیے صدقہ و خیرات کرنا اسی وقت سود مند ہے جب وہ شرعی حدود کو پیشِ نظر رکھے۔ کسی کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ اپنے اہل و عیال سے بے نیاز ہو کر اپنی تمام جائیداد فی سبیل اللہ وقف کر دے اور اپنے ورثاء کو مفلس اور تنگ دست چھوڑ جائے۔ ایسا کرنے سے ورثاء کی حق تلفی ہو گی۔ ہاں! اگر کوئی حضرت ابوبکر ؓ جیسا صابر و شاکر مسلمان ہو تو اس کے لیے زیادہ سے زیادہ ایثار پیش کرنا جائز ہو گا، مگر آج کل ایسی مثالیں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتیں۔