تشریح:
(1) حضرت حذیفہ ؓ خود فرماتے ہیں کہ میں عام طور پر رسول اللہ ﷺ سے فتنوں کے متعلق ہی سوال کیا کرتا تھا تاکہ ان سے بچنے کے متعلق کوئی تدبیر کروں۔ (2) دروازہ ٹوٹنے سے مراد حضرت عمر ؓ کا شہید ہونا تھا جسے حضرت عمر فاروق ؓ بھی خوب جانتے تھے۔ واقعی آپ کی شہادت کے بعد فتنوں کا ایسا بازار گرم ہوا جو قیامت تک ٹھنڈا ہونے والا نہیں۔ آپ کا وجود مسعود واقعی ان فتنوں کے سامنے سدِ سکندری کی حیثیت رکھتا تھا۔ (3) حضرت امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ صدقہ و خیرات سے گناہ مٹ جاتے ہیں اور آدمی اندرونی آلائشوں سے پاک ہو جاتا ہے، چنانچہ حدیث میں اس کی صراحت ہے۔ اس حدیث کے متعلق دیگر فوائد ہم آئندہ حدیث: 3586 کے تحت ذکر کریں گے۔ إن شاءاللہ