تشریح:
(1) حدیث کے آخری حصے کا ایک ترجمہ یہ بھی ہے کہ تم گزشتہ نیکیوں پر پابند رہنے کی بنا پر تو مسلمان ہوئے ہو، یعنی تمہیں ان کا ثواب ملے گا۔ اس کے متعلق کوئی تاویل کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ اسے اپنے ظاہری مفہوم ہی پر محمول کرنا چاہیے، یعنی کافر کو اسلام لانے کے بعد دوران کفر میں کی گئی نیکیوں کا بھی ثواب ملے گا۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ جو شخص اسلام لایا پھر اس نے اچھی طرح اسلام کے تقاضوں کو پورا کیا تو اسے زمانہ کفر کی طاعات و حسنات کا بھی اجر ملے گا اور اس کی دوران کفر میں کی ہوئی تمام غلطیوں کو بھی مٹا دیا جائے گا۔ (سنن النسائي، الإیمان، حدیث:5001) جبکہ صحیح بخاری میں صرف کفارہ سیئات کا ذکر ہے اور نیکیوں کو جمع کرنے کے الفاظ نہیں ہیں۔ (صحیح البخاري، الإیمان، حدیث:41) بعض حضرات نے لکھا ہے کہ امام بخاری ؒ نے اس جملے کو دانستہ حذف کر دیا ہے، کیونکہ دوران کفر میں کی ہوئی نیکیوں کو ثواب ملنا عام قواعد کے خلاف ہے، لیکن ابن بطال نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر جو چاہے اور جس طرح چاہے اپنا فضل و کرم کرے ہمیں اس پر اعتراض کی اجازت نہیں۔ (فتح الباري:134/1) (2) ہمارے نزدیک ابن بطال نے بجا فرمایا ہے اور بلاوجہ امام بخاری ؒ کے متعلق ایسا کہنا درست نہیں۔ اس سلسلے میں ہمارا موقف یہ ہے کہ حسنات کی دو قسمیں ہیں: ٭ ایسی حسنات جن کا براہ راست عبادات سے تعلق نہیں بلکہ وہ مکارم اخلاق اور انسانی ہمدردی سے متعلق ہیں، مثلا: حلم و بردباری، غلام آزاد کرنا اور صدقہ و خیرات کرنا وغیرہ۔ حسنات کی یہ اقسام کافر کے لیے آخرت میں نافع ہوں گی۔ صلہ رحمی کے متعلق تو حدیث میں صراحت ہے کہ کافر کو بھی اس کے عوض دنیا میں عزت اور رزق میں کشادگی حاصل ہوتی ہے، لیکن اس قسم کی حسنات اخروی عذاب سے نجات کا باعث نہیں ہوں گی، کیونکہ اس کے لیے ایمان شرط ہے، خواہ دھندلا سا ہی کیوں نہ ہو، البتہ ان کی وجہ سے عذاب میں تخفیف ضرور ہو گی، مثلا: نبی ﷺ کے چچا ابو طالب کا سارا بدن عذاب سے محفوظ ہو گا، صرف آگ کے جوتے ان کو پہنائے جائیں گے جن کی گرمی سے ان کا دماغ کھولتا رہے گا۔ (صحیح البخاري، مناقب الأنصار، حدیث:3885) ٭ ایسی حسنات جن کا تعلق براہِ راست عبادات سے ہے، مثلا: نماز پڑھنا یا حج کرنا، ان کا دنیا یا آخرت میں کوئی اعتبار نہ ہو گا، ہاں! اگر مسلمان ہو جائے تو انہیں شمار کر لیا جائے گا۔ اگر مسلمان نہ ہوا اور حالت کفر پر موت آئی تو ایسی عبادات کو هباء منثورا کر دیا جائے گا، کیونکہ عبادات میں نیت ضروری ہے اور ایمان کے بغیر نیت معتبر نہیں ہو گی۔ دوسری قسم کی طاعات میں نیت شرط نہیں ہے۔ حضرت حکیم بن حزام ؓ کی حدیث میں بھی صرف عتق و صدقہ اور صلہ رحمی وغیرہ کا ذکر ہے، عبادات کا اس میں کوئی ذکر نہیں۔ حدیث میں ہے کہ کافر انسان کو دنیا میں اس کے اچھے کاموں کا صلہ کشادگی رزق کی صورت میں دیا جاتا ہے۔ (فتح الباري:381/3) امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ کافر یا مشرک جب دائرہ اسلام میں داخل ہوتا ہے تو اس کی سابقہ نیکیاں بھی محفوظ رہتی ہیں اور اسے زمانہ کفر کی نیکیوں کا ثواب ملتا ہے، یہ محض اللہ کا فضل اور اس کا کرم ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے متعدد توجیہات ذکر کی ہیں، لیکن ہمارے نزدیک یہی بات صحیح ہے کہ کافر جب مسلمان ہو جائے تو اس کی سابقہ نیکیوں کو بھی اس کے نامہ اعمال میں جمع کر دیا جائے گا بشرطیکہ وہ اسلام پر کاربند رہتے ہوئے فوت ہوا ہو۔ (فتح الباري:381/3)