تشریح:
(1) ایک حدیث کے آخر میں یہ اضافہ ہے کہ تب اللہ تعالیٰ نے (باب میں مذکور) یہ آیات نازل فرمائیں۔ امام بخاری ؒ نے اس عنوان میں مذکورہ آیات کا حوالہ بھی غالبا اس لیے دیا ہے کہ سبب نزول کی نشاندہی ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ خرچ کرنے والے کو دنیا میں اس کا بدل عطا کرتا ہے، جیسا کہ ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿وَمَا أَنفَقْتُم مِّن شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ ۖ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ ﴿٣٩﴾) (سبا39:34) ’’جو کچھ تم خرچ کرتے ہو تو وہ اس کی جگہ تمہیں اور دے دیتا ہے اور وہ سب سے بہتر رزاق ہے۔‘‘ (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بخیل اپنے مال کی تباہی کا سزاوار ہے، کیونکہ وہ واجبات کی ادائیگی میں بخل سے کام لیتا ہے۔ (فتح الباري:384/3)