تشریح:
(1) اس عنوان کے دو جز ہیں: ٭ مقدار عطیہ ٭ اعطائے شاۃ۔ جز ثانی کو عطیہ شاۃ سے ثابت کیا اور جز اول کے متعلق کوئی تحدید نہیں، جس قدر میسر ہے محتاج کو دے دیا جائے، اس لیے تحدید کے متعلق کوئی حدیث پیش نہیں کی۔ (2) اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ملکیت کے بدلنے سے حکم بھی بدل جاتا ہے کیونکہ صدقات و خیرات رسول اللہ ﷺ پر حرام ہیں، لیکن محتاج کو جب صدقہ ہوا اور اس نے بطور تحفہ کچھ دے دیا تو ایسا کرنے سے اس کا حکم بدل گیا اور رسول اللہ ﷺ کے لیے اس کا استعمال کرنا جائز ہوا کیونکہ اس قسم کے مال پر احکام زکاۃ نہیں ہیں۔ یہی مضمون حضرت بریرہ ؓ کی حدیث میں بیان ہوا ہے جس پر امام بخاری ؒ آئندہ ایک مستقل عنوان قائم کریں گے کہ جب صدقے کی ہئیت تبدیل ہو جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟ (صحیح البخاري، الزکا ه، باب:62) واضح رہے کہ نسیبہ ؓ خود حضرت ام عطیہ ؓ ہیں جیسا کہ امام بخاری ؓ نے اس کتاب کے ایک نسخے میں اس کی صراحت کی ہے۔ (فتح الباري:390/3)