تشریح:
(1) امام بخاری ؒ کا یہ طرز استدلال ہے کہ وہ عمومات اور اطلاقات سے بہت فائدہ اٹھاتے ہیں، چنانچہ اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں صدقہ کرنے کا حکم دیا تو انہوں نے صدقے میں ایسے زیورات پیش کیے جو سونے اور چاندی کے علاوہ مونگوں سے تیار شدہ خشبوئی ہار بھی تھے۔ جن میں زکاۃ واجب نہیں ہوتی۔ (2) اس سے معلوم ہوا کہ زکاۃ میں ایسی اشیاء دی جا سکتی ہیں جو سونے چاندی سے تیار شدہ نہ ہوں، لیکن رسول اللہ ﷺ نے عید کے بعد خواتین اسلام کو فرض زکاۃ و صدقے کا حکم نہیں دیا تھا، بلکہ یہ ایک نفلی خیرات تھی جسے انہوں نے حسب توفیق ادا کر دیا، البتہ امام بخاری ؒ کا موقف ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عام صدقے کا حکم دیا تھا جو اپنے عموم کے اعتبار سے فرض اور نفل دونوں اقسام کو شامل تھا، اس لیے فرض زکاۃ میں بھی قیمت ادا کی جا سکتی ہے۔ ہمارے نزدیک صارفین کی ضروریات کا خیال رکھا جائے۔ اس مجبوری کے پیش نظر زکاۃ میں کپڑے، سامان یا قیمت ادا کی جا سکتی ہے۔ واللہ أعلم۔