Sahi-Bukhari:
Obligatory Charity Tax (Zakat)
(Chapter: The examples of an alms-giver and a miser)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1460.
حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے ہی روایت ہے، وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے جُنَّتَانِ کا لفظ ارشاد فرمایا ہے۔
تشریح:
(1) حدیث میں بیان کردہ مثال سے مراد صدقہ کرنے والے انسان کی بخیل پر فضیلت کو بیان کرنا ہے۔ (2) محدثین کرام نے اس کی مختلف انداز سے تشریح کی ہے۔ ابن بطال نے کہا ہے کہ سخی جب سخاوت کرتا ہے تو صدقہ اس کے گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے اور اس کے تمام گناہ مٹا دیتا ہے، جیسا کہ کرتا پھیل جائے تو پہننے والے کے پورے بدن کو چھپا لیتا ہے اور اس کی حفاظت کرتا ہے جبکہ بخیل کا نفس خرچ کرنے میں اس کی موافقت نہیں کرتا، لہذا وہ گناہوں کے کفارے سے محروم رہتا ہے۔ بعض علماء نے اس کی وضاحت بایں طور کی ہے کہ سخی جب خرچ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا سینہ کھل جاتا ہے اور اس کے ہاتھ بھی اس کی موافقت کرتے ہیں جبکہ بخیل کا سینہ سخاوت کے وقت تنگ ہو جاتا ہے اور اس کے ہاتھ بھی خرچ کرنے میں اس کا ساتھ نہیں دیتے۔ (3) اس مثال کی وضاحت اس طرح بھی ہے کہ سخی انسان کو اللہ تعالیٰ پردے میں رکھتا ہے، جیسا کہ کرتا انسان کو چھپا لیتا ہے، اس طرح اللہ تعالیٰ سخی پر دنیا و آخرت میں پردہ ڈالتا ہے جبکہ بخیل کا کرتا اس کے گلے میں پھنسا رہتا ہے جس کی وجہ سے اس کا جسم ننگا رہتا ہے جو اس کی ذلت اور رسوائی کا باعث بنتا ہے اس طرح اللہ تعالیٰ بخیل کو دونوں جہانوں میں ذلیل و خوار کرتا ہے۔ (4) حسن بن مسلم کی متابعت کو امام بخاری ؒ نے خود ہی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، اللباس، حدیث:5797) جبکہ حضرت ابو ہریرہ ؓ کی دوسری روایت کو صحیح ابن حبان میں بیان کیا گیا ہے۔ (فتح الباري:387/3)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1407
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1444
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1444
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1444
تمہید کتاب
لفظ زکاۃ لغوی طور پر بڑھنے، نشوونما پانے اور پاکیزہ ہونے کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ عربی زبان میں زكا الزرع کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں: کھیتی نے نشوونما پائی۔ اسی طرح مال کی بڑھوتری کے معنوں میں بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔ شریعت نے بھی ان دونوں لغوی معنوں کو استعمال کیا ہے۔ زکاۃ کو زکاۃ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کی ادائیگی سے مال مزید بڑھ جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ) "۔۔ اللہ تعالیٰ صدقات کو بڑھا دیتا ہے۔" (البقرۃ276:2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس معنی کی تائید فرمائی ہے، حدیث میں ہے: (ما نقصت صدقة من مال) (صحیح مسلم،البروالصلۃ،حدیث:6592(2588)) "صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا۔" (صحیح مسلم، البر والصلۃ، حدیث: 6592 (2588))زکاۃ مال کو پاک اور اسے استعمال کے قابل بنا دیتی ہے اور صاحب مال کو گناہوں اور بخل کی رذالت سے پاک کر دیتی ہے۔ یہ دونوں معانی ایک آیت میں استعمال ہوئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا) "آپ ان کے اموال سے صدقہ لیں جس کے ذریعے سے آپ انہیں گناہوں سے پاک کریں اور ان کے اجرومال میں اضافہ کریں۔" (التوبۃ103:9) قرآن کریم میں اکثر مقامات پر یہ لفظ پاکیزگی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَلَا تُزَكُّوا أَنفُسَكُمْ) "اپنے نفوس کی پاکیزگی کا دعویٰ نہ کرو۔" (النجم32:53) نیز فرمایا: (قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ ﴿١٤﴾) "یقینا وہ کامیاب ہے جس نے اپنا تزکیہ کر لیا۔" (الاعلیٰ14:87) زکاۃ کو اس لیے بھی زکاۃ کہتے ہیں کہ یہ ایسے اموال سے لی جاتی ہے جن میں نشوونما اور بڑھنے کی صلاحیت ہوتی ہے، مثلا: تجارت اور زراعت وغیرہ۔اس کی شرعی تعریف یہ ہے کہ ایسا حق جو مقررہ نصاب پر سال گزرنے کے بعد واجب ہوتا ہے جسے کسی فقیر یا اس کے مثل کسی شخص کو دیا جاتا ہے جبکہ وہ شرعی موانع کے ساتھ متصف نہ ہو۔ زکاۃ کے لیے رکنِ اعظم یہ ہے کہ اس کی ادائیگی کے وقت انسان میں اخلاص ہو کیونکہ شہرت اور ریاکاری کی نیت سے زکاۃ دینا عنداللہ معتبر نہیں ہو گا۔ اس سے دنیا میں وجوب کی ادائیگی اور آخرت میں ثواب کا حصول مقصود ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ یہ انسانوں کو گناہوں اور بری خصلتوں سے پاک کر دیتی ہے اور ان کے درجات بلند کرتی ہے۔زکاۃ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ شہادت توحید و رسالت اور اقامت صلاۃ کے بعد زکاۃ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔ قرآن مجید میں نماز کے ساتھ زکاۃ کا بیان بیاسی (82) مقامات پر آیا ہے۔ گویا دین اسلام میں ان دونوں کا مقام اور مرتبہ قریب قریب ایک ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب بعض قبائل، جو بظاہر اسلام قبول کر چکے تھے، نے زکاۃ دینے سے انکار کر دیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے خلاف جہاد کیا۔ اس کی بنیاد یہ تھی کہ انہوں نے نماز اور زکاۃ میں تفریق کی تھی جو شریعت کی نظر میں انحراف و ارتداد ہے۔ زکاۃ ہجرت سے پہلے فرض ہو چکی تھی لیکن اس دور میں زکاۃ کا مطلب صرف یہ تھا کہ حاجت مندوں اور خیر کے دوسرے راستوں پر اپنی کمائی خرچ کی جائے، نظام زکاۃ کی تفصیل اور دیگر احکام و مسائل ہجرت کے دوسرے سال نازل ہوئے ہیں، چنانچہ ہجرت سے پہلے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے نجاشی کے دربار میں کہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے اور زکاۃ دینے کا حکم دیتے ہیں، اسی طرح ہرقل کے سوال و جواب میں حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا تھا کہ وہ ہمیں نماز و زکاۃ کا حکم دیتے ہیں اور صلہ رحمی و پاک دامنی کی ہدایت کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکاۃ مکہ میں فرض ہو چکی تھی، البتہ اس کے تفصیلی احکام ہجرت کے بعد نازل ہوئے۔ مرکزی طور پر اس کی وصولی اور تقسیم کار کا نظام 8 ہجری کے بعد قائم ہوا جس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔زکاۃ میں نیکی اور افادیت کے تین پہلو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: بندہ مومن جس طرح نماز کے قیام اور رکوع و سجود کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی بندگی اور نیاز مندی کا مظاہرہ جسم و جان اور زبان سے کرتا ہے تاکہ اسے اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل ہو، اسی طرح زکاۃ ادا کر کے وہ اس کی بارگاہ میں اپنا مالی نذرانہ اسی غرض سے پیش کرتا ہے کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی کا دیا ہوا ہے اور وہ اس کی رضا اور قرب حاصل کرنے کے لیے اسے قربان کرتا ہے۔ زکاۃ کا شمار عبادات میں اسی پہلو سے ہے۔زکاۃ کے ذریعے سے ضرورت مند اور پریشان حال لوگوں کی خدمت اور مدد ہوتی ہے۔ اس پہلو سے زکاۃ، اخلاقیات کا نہایت ہی اہم باب ہے کہ انسان دوسرے کے کام آتا ہے اور بوقت ضرورت ان کا تعاون کرنے میں پیش پیش ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے، (صحیح مسلم،الذکروالدعاء،حدیث:6853(2699)) لہذا زکاۃ بھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔زکاۃ کی افادیت کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ حُبِ مال اور دولت پرستی جو ایک ایمان کش اور مہلک روحانی بیماری ہے، زکاۃ سے اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی معاشرتی گندے جرائم اور زہریلے مواد کو زکاۃ کے ذریعے سے ختم کر کے انسانی نفس کو پاک اور صاف کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ زکاۃ کے اس پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے، غالبا اسی پہلو سے اس فریضے کا نام زکاۃ رکھا گیا ہے کیونکہ اس کے اصل معنی پاکیزگی کے ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ چونکہ امت کے نبض شناس ہیں، انہوں نے زکاۃ کے متعلقہ احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے تقریبا ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع متصل احادیث بیان کی ہیں، پھر ان پر اٹھتر (78) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو معاشرتی طور پر انتہائی کارآمد اور مفید ہیں۔ ان عناوین کے تحت آپ نے زکاۃ کا وجوب، اس کی اہمیت و افادیت، تجارتی، زرعی اور معدنی زکاۃ کے مسائل بڑی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ حیوانات سے زکاۃ کے پہلو کو بھی نمایاں کیا ہے، صدقہ فطر کے احکام بھی ذکر کیے ہیں اور اس کے متعلق اخلاقی پہلوؤں کا بھی جائزہ لیا ہے، نیز اس سے پہلوتہی کرنے پر جو وعید آئی ہے اسے بھی ذکر کیا ہے۔ الغرض زکاۃ کے متعلق جملہ مسائل و احکام بڑے ٹھوس اور خاموش انداز سے بیان کیے ہیں۔کتاب الزکاۃ ایک سو بہتر (172) مرفوع احادیث پر مشتمل ہے جن میں ایک سو اُنیس (119) احادیث موصول ہیں اور باقی متابعات اور معلقات ہیں۔ ان تمام میں سے سو (100) احادیث مکرر اور بہتر (72) احادیث خالص، یعنی غیر مکرر ہیں۔ سترہ (17) احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے تقریبا بیس (20) آثار بھی مروی ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو صرف اضافہ معلومات کے طور پر ہرگز نہ پڑھا جائے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو مضبوط کرنے کی غرض سے ان کا مطالعہ کیا جائے، نیز دوران مطالعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و محبت کو بھی دل میں بیدار کیا جائے۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء إليٰ صراط مستقيم
حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے ہی روایت ہے، وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے جُنَّتَانِ کا لفظ ارشاد فرمایا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) حدیث میں بیان کردہ مثال سے مراد صدقہ کرنے والے انسان کی بخیل پر فضیلت کو بیان کرنا ہے۔ (2) محدثین کرام نے اس کی مختلف انداز سے تشریح کی ہے۔ ابن بطال نے کہا ہے کہ سخی جب سخاوت کرتا ہے تو صدقہ اس کے گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے اور اس کے تمام گناہ مٹا دیتا ہے، جیسا کہ کرتا پھیل جائے تو پہننے والے کے پورے بدن کو چھپا لیتا ہے اور اس کی حفاظت کرتا ہے جبکہ بخیل کا نفس خرچ کرنے میں اس کی موافقت نہیں کرتا، لہذا وہ گناہوں کے کفارے سے محروم رہتا ہے۔ بعض علماء نے اس کی وضاحت بایں طور کی ہے کہ سخی جب خرچ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا سینہ کھل جاتا ہے اور اس کے ہاتھ بھی اس کی موافقت کرتے ہیں جبکہ بخیل کا سینہ سخاوت کے وقت تنگ ہو جاتا ہے اور اس کے ہاتھ بھی خرچ کرنے میں اس کا ساتھ نہیں دیتے۔ (3) اس مثال کی وضاحت اس طرح بھی ہے کہ سخی انسان کو اللہ تعالیٰ پردے میں رکھتا ہے، جیسا کہ کرتا انسان کو چھپا لیتا ہے، اس طرح اللہ تعالیٰ سخی پر دنیا و آخرت میں پردہ ڈالتا ہے جبکہ بخیل کا کرتا اس کے گلے میں پھنسا رہتا ہے جس کی وجہ سے اس کا جسم ننگا رہتا ہے جو اس کی ذلت اور رسوائی کا باعث بنتا ہے اس طرح اللہ تعالیٰ بخیل کو دونوں جہانوں میں ذلیل و خوار کرتا ہے۔ (4) حسن بن مسلم کی متابعت کو امام بخاری ؒ نے خود ہی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، اللباس، حدیث:5797) جبکہ حضرت ابو ہریرہ ؓ کی دوسری روایت کو صحیح ابن حبان میں بیان کیا گیا ہے۔ (فتح الباري:387/3)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اور حنظلہ نے طاؤس سے دوز رہیں نقل کیا ہے اور لیث بن سعد نے کہا مجھ سے جعفر بن ربیعہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے عبدالرحمن بن ہر مز سے سنا کہا کہ میں نے ابوہریرہ ؓ سے سنا ‘ انہوں نے آنحضرت ﷺ سے پھر یہی حدیث بیان کی اس میں دو زر ہیں ہیں۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں بخیل اور متصدق کی مثالیں بیان کی گئی ہیں۔ سخی کی زرہ اتنی نیچی ہوجاتی ہے جیسے بہت نیچا کپڑا آدمی جب چلے تو وہ زمین پر گھسٹتا رہتا ہے اور پاؤں کا نشان مٹا دیتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ سخی آدمی کا دل روپیہ خرچ کرنے سے خوش ہوتا ہے اور کشادہ ہوجاتا ہے۔ بخیل کی زرہ پہلے ہی مرحلہ پر اس کے سینہ سے چمٹ کررہ جاتی ہے اور اس کو سخاوت کی توفیق ہی نہیں ہوتی۔ اس کے ہاتھ زرہ کے اندر مقید ہوکر رہ جاتے ہیں۔ حسن بن مسلم کی روایت کو امام بخاری نے کتاب اللباس میں اور حنظلہ کی روایت کو اسماعیل نے وصل کیا اور لیث بن سعد کی روایت اس سند سے نہیں ملی۔ لیکن ابن حبان نے اس کو دوسری سند سے لیث سے نکالا۔ جس طرح کہ حافظ ابن حجر ؒ نے بیان کیا ہے۔