تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جانوروں کی زکاۃ ادا نہ کرنے والوں کو لوگوں کا حساب مکمل ہونے تک عذاب دیا جائے گا، ان جانوروں میں گائے کا بھی ذکر ہے۔ (2) امام بخاری ؒ نے اس سے گائے کی زکاۃ کا وجوب ثابت کیا ہے لیکن اس کے متعلق زکاۃ کی کیفیت کو بیان نہیں کیا کیونکہ ان کے نزدیک ایسی کوئی حدیث ان کی شرائط کے مطابق نہیں تھی، البتہ امام ترمذی ؒ نے حضرت معاذ بن جبل ؒ سے بیان کیا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے یمن بھیجا اور حکم دیا کہ میں چالیس گایوں سے مسنہ اور تیس سے ایک تبیعہ بطور زکاۃ وصول کروں۔ (جامع الترمذي، الزکاة، حدیث:623) اس کے علاوہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، وہ رسول الله ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تیس گایوں میں سے ایک سال کا بچھڑا (تبیعہ) جو دوسرے سال کی عمر میں ہو اور چالیس گایوں میں سے دو سال کا بچھڑا یا بچھڑی (مسنہ) جو تیسرے سال کی عمر میں ہو، زکاۃ ہے۔‘‘ (جامع الترمذي، الزکاة، حدیث:622) بھینسوں پر بھی اسی شرح سے زکاۃ لاگو ہوئی، ان کی شرح زکاۃ اس طرح ہے۔ 1 تا 29 گایوں پر کوئی زکاۃ نہیں۔ 2) 30 تا 39 پر یک سالہ بچھڑا یا بچھڑی (تبیعہ) 3) 40 تا 59 پر دو سالہ بچھڑا یا بچھڑی (مسنہ) 4) 60 تا 69 پر یکسالہ دو بچھڑے یا بچھڑیاں 5) 70 تا 79 ایک سالہ بچھڑا یا بچھڑی + دو سالہ بچھڑا یا بچھڑی 6) 80 تا 89 دو سالہ بچھڑا یا بچھڑی 2 عدد 7) 90 تا 99 یکسالہ بچھڑا یا بچھڑی 3 عدد ان کا اصول یہ ہے کہ ہر تیس عدد پر یکسالہ بچھڑا یا بچھڑی اور ہر چالیس کے عدد پر دو سالہ بچھڑا یا بچھڑی وصول کی جائے۔ اس کے علاوہ مندرجہ ذیل شرائط بھی ہیں: ٭ سال کا بیشتر حصہ وہ جنگل میں گھاس وغیرہ چرتی ہوں۔ ٭ وہ کاشت کاری وغیرہ کے کام آتی ہوں۔ ٭ اگر مستقل طور پر مالک کے خرچ پر گزارہ کرتی ہوں اور انہیں ذاتی استعمال کے لیے رکھا گیا ہے تو ان میں کوئی زکاۃ نہیں۔ اگر انہیں تجارت یا ڈیری فارم کے طور پر رکھا ہے تو ان کی آمدنی پر زکاۃ ہو گی۔ (3) امام بخاری ؒ نے بکیر کی حدیث کا حوالہ دیا ہے، اسے امام مسلم ؒ نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے، اس میں اونٹ، گائے اور بکریوں کا ذکر ہے جن سے زکاۃ نہ دی گئی ہو۔ (صحیح مسلم، الزکاة، حدیث:2295(987)) (4) امام بخاری ؒ نے گائے کے متعلق زکاۃ کو مؤخر بیان کیا ہے، کیونکہ عرب علاقے میں یہ بہت کم ہوتی ہیں، شاید کہیں اس کا نصاب مکمل ہوتا ہو، غالبا یہی وجہ ہے کہ امام بخاری ؒ نے صرف اس کے وجوب ہی کو بیان کیا ہے، دیگر تفاصیل ذکر نہیں کی ہیں۔ (فتح الباري:407/3)