قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ الزَّكَاةِ (بَابُ الزَّكَاةِ عَلَى الأَقَارِبِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة 

ترجمة الباب: وَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: «لَهُ أَجْرَانِ أَجْرُ القَرَابَةِ وَالصَّدَقَةِ

1461. حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، أَنَّهُسَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: كَانَ أَبُو طَلْحَةَ أَكْثَرَ الأَنْصَارِ بِالْمَدِينَةِ مَالًا مِنْ نَخْلٍ، وَكَانَ أَحَبُّ أَمْوَالِهِ إِلَيْهِ بَيْرُحَاءَ، وَكَانَتْ مُسْتَقْبِلَةَ المَسْجِدِ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْخُلُهَا وَيَشْرَبُ مِنْ مَاءٍ فِيهَا طَيِّبٍ، قَالَ أَنَسٌ: فَلَمَّا أُنْزِلَتْ هَذِهِ الآيَةُ: {لَنْ تَنَالُوا البِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ آل عمران: قَامَ أَبُو طَلْحَةَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَقُولُ: لَنْ تَنَالُوا البِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ آل عمران وَإِنَّ أَحَبَّ أَمْوَالِي إِلَيَّ بَيْرُحَاءَ، وَإِنَّهَا صَدَقَةٌ لِلَّهِ، أَرْجُو بِرَّهَا وَذُخْرَهَا عِنْدَ اللَّهِ، فَضَعْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ حَيْثُ أَرَاكَ اللَّهُ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بَخٍ، ذَلِكَ مَالٌ رَابِحٌ، ذَلِكَ مَالٌ رَابِحٌ، وَقَدْ سَمِعْتُ مَا قُلْتَ، وَإِنِّي أَرَى أَنْ تَجْعَلَهَا فِي الأَقْرَبِينَ» فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ: أَفْعَلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَسَمَهَا أَبُو طَلْحَةَ فِي أَقَارِبِهِ وَبَنِي عَمِّهِ، تَابَعَهُ رَوْحٌ، وَقَالَ يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، وَإِسْمَاعِيلُ: عَنْ مَالِكٍ «رَايِحٌ

مترجم:

ترجمۃ الباب:

اور نبی کریم ﷺ نے ( زینب کے حق میں فرمایا جو عبداللہ بن مسعود کی بیوی تھی ) اس کو دوگنا ثواب ملے گا ‘ ناطہ جوڑنے اور صدقے کا۔اہلحدیث کے نزدیک یہ مطلقاً جائز ہے جب اپنے رشتہ دار محتاج ہوں تو باپ بیٹے کو یا بیٹا باپ کو یا خاوند بیوی کو یا بیوی خاوند کو دے۔بعضوں نے کہا اپنے چھوڑے بچے کو فرض زکوٰۃ دینا بالاجماع درست نہیں اور امام ابوجنیفہ اور امام مالک نے اپنے خاوند کو بھی دینا درست نہیں رکھا اور امام شافعی اور امام احمد نے حدیث کے موافق اس کو جائز رکھا ہے۔مترجم(مولانا وحید الزماں مرحوم) کہتا ہے کہ رشتہ داروں کو اگر وہ محتاج ہوں زکوٰۃ دینے میں دہرا ثواب ملے گا ناجائز ہوتا کیسا ؟(وحیدی)۔رائح کا معنی بے کھٹکے آمدنی کا مال یا بے محنت اور مشقت کی آمدنی کا ذریعہ روح کی روایت خود امام بخاری نے کتاب البیوع میں اور یحییٰ کی کتاب الوصایا میں اور اسماعیل کی کتاب التفسیر میں وصل کی ۔ (وحیدی)

1461.

حضرت انس ؓ  سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا:حضرت ابو طلحہ ؓ  مدینہ میں تمام انصار سے زیادہ مالدار اور کھجوروں کے باغات رکھنے والے تھے، انھیں سب سے زیادہ پسند بیر حاء نامی باغ تھا جو مسجد نبوی کے سامنے واقع تھا، وہاں رسول اللہ ﷺ تشریف لے جاتے اور اس کا خوش گوار پانی نوش فرماتے، حضرت انس ؓ  فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی:’’تم نیکی نہیں حاصل کر سکتے جب تک اپنی پسندیدہ چیزوں میں سے خرچ نہ کرو۔‘‘ تو حضرت طلحہ ؓ  نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے کھڑے ہو کر عرض کیا:اللہ کے رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’تم نیکی نہیں حاصل کر سکتے جب تک اپنی پسندیدہ چیزوں میں سے خرچ نہ کرو۔‘‘ اور میرا سب سے محبوب مال بیرحاء ہے، لہٰذاوہ آج سے اللہ کی راہ میں وقف ہے اور میں اللہ کے ہاں اس کے ثواب اور آخرت میں اس کے ذخیرہ ہونے کا امیدوارہوں۔ اللہ کے رسول اللہ ﷺ آپ اسے اللہ کے حکم کے مطابق مصرف میں لے آئیں، حضرت انس ؓ  کا بیان ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’بہت خوب!یہ تو بہت نفع بخش سامان ہے، یہ تو واقعی نفع بخش مال ہے، اور جو کچھ تم نے کہا میں نے سن لیا ہے اور میرا مشورہ ہے کہ تم اسے اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کردو۔‘‘حضرت ابو طلحہ ؓ  نے عرض کیا:اللہ کے رسول اللہ ﷺ !میں آپ کے حکم کی تعمیل کروں گا، چنانچہ حضرت ابو طلحہ ؓ  نے اسے اپنے رشتہ داروں اور چچا زاد بھائیوں میں تقسیم کردیا۔ روح نے امام مالک سے روایت کرنے میں عبد اللہ بن یوسف کی متابعت کی ہے اور ایک روایت میں رابح کے بجائے رایح کے الفاظ منقول ہیں جس کے معنی ہیں:’’یہ تو چلتا ہوا مال ہے۔‘‘