تشریح:
(1) قائم کردہ عنوان اور پیش کردہ آثار و حدیث سے امام بخاری ؒ کا مقصود یہ ہے کہ مصارف زکاۃ میں سے رقاب، غارمین اور فی سبیل اللہ کی وضاحت کریں۔ ان میں سے دو مصارف تو ایسے ہیں جن کے متعلق علمائے امت کا اختلاف ہے، یعنی رقاب اور فی سبیل اللہ۔ امام بخاری نے ان کا مفہوم اور مقصد متعین کرنے میں اپنا رجحان بیان کیا ہے، چنانچہ رقاب کے متعلق اختلاف ہے کہ اس سے مراد عام غلام ہیں یا وہ غلام جنہوں نے اپنی آزادی کے لیے اپنے مالک کے ساتھ کچھ رقم ادا کرنے پر معاہدہ کر رکھا ہے جنہیں مکاتب کہتے ہیں۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ مالِ زکاۃ سے صرف مکاتب غلام ہی آزاد کیے جا سکتے ہیں جبکہ امام بخاری کا موقف ہے کہ مذکورہ آیت مکاتب اور غیر مکاتب تمام قسم کے غلاموں کو شامل ہے، اپنی تائید کے لیے انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ کا اثر پیش کیا ہے، نیز حدیث میں ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: ایسا عمل بتائیں جو مجھے جنت کے قریب اور جہنم سے دور کر دے۔ آپ نے فرمایا: ’’جان کو آزاد کرو اور گردن کو چھڑاؤ۔‘‘ اس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ان دونوں سے ایک ہی مراد ہے؟ آپ نے فرمایا:’’نہیں! یہ دونوں الگ الگ ہیں۔ جان کو آزاد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ تم اکیلے ہی کسی غلام کو آزاد کرو اور گردن چھڑانے سے مراد یہ ہے کہ تم اس کی قیمت ادا کرنے میں مدد کرو۔‘‘ (مسندأحمد:299/4) امام ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں کہ مکاتب اگر خود اپنی قیمت ادا کرنے کی پوزیشن میں ہے تو اسے زکاۃ نہیں دینی چاہیے اور اگر اس کے پاس کچھ نہیں ہے تو مال زکاۃ سے پوری رقم ادا کر دی جائے اور اگر کچھ رقم موجود ہے تو باقی رقم زکاۃ سے ادا کر دی جائے تاکہ اسے پوری آزادی مل جائے۔ (عمدةالقاري:487/6) (2) امام بخارى ؒ کا بیان کردہ دوسرا مصرف فی سبیل اللہ ہے۔ اس سے مراد کیا ہے؟ امام بخاری کے بیان کے مطابق جہاد اور حج بھی اس میں شامل ہے، چنانچہ آپ نے حج کے لیے حضرت ابن عباس ؓ اور حسن بصری ؒ کے آثار کو پیش کیا ہے، نیز آپ نے ابولاس ؓ سے مروی ایک معلق حدیث کا حوالہ دیا ہے، اسی طرح جہاد کے متعلق بھی حسن بصرى کا قول اور مرفوع حدیث کا حوالہ دیا ہے۔ حدیث میں حضرت خالد بن ولید ؓ کے متعلق ذکر ہے کہ انہوں نے اپنی زرہوں اور آلات حرب کو اللہ کے رستے میں وقف کر رکھا ہے، اس لیے زکاۃ کا مطالبہ کرنا درست نہیں۔ امام بخاری ؒ کے استدلال کے مطابق اس کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے وقف کرتے وقت اپنے مال سے زکاۃ نکالنے کی نیت کی تھی کیونکہ مال زکاۃ جہاد میں صرف ہو سکتا ہے اسی بنا پر فی سبیل اللہ میں یہ شامل ہے۔ (3) حضرت عباس ؓ کے زکاۃ ادا نہ کرنے کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ بدر میں اپنا اور اپنے بھائی کا فدیہ دینے کی وجہ سے مقروض تھے، انہوں نے اپنے مال کو خود پر قرض خیال کیا اور بحیثیت مقروض زکاۃ کو خود اپنے لیے جائز سمجھا۔ یہ معنی ان الفاظ کے تناظر میں ہیں کہ "هي عليه صدقة۔۔۔" اور ابو زناد کے الفاظ کے مطابق یہ ہوں گے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کی زکاۃ میرے ذمے ہے بلکہ مزید ایک سال کی زکاۃ بھی اور یہی معنی راجح ہیں۔ اس زکاۃ کی ذمہ داری آپ نے کیوں لی؟ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے حضرت عباس ؓ سے دو سال کی پیشگی زکاۃ وصول کر لی تھی۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اگرچہ ان روایات کو سندا کمزور کہا ہے لیکن راجح بات یہی ہے کہ یہ روایات حسن درجے کی ہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (إرواء الغلیل، حدیث: 857) دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ عباس کی زکاۃ کی فکر نہ کرو وہ میرے ذمے رہی کیونکہ وہ میرے چچا ہیں اور چچا باپ ہوتا ہے، اس لیے میں نے دے دی یا انہوں نے، ایک ہی بات ہے۔ اس توجیہ کی تائید صحیح مسلم کی ایک حدیث (983) سے ہوتی ہے، تاہم اگر پیشگی زکاۃ وصول کرنے والی روایات صحیح ہوں تو پہلی وجہ راجح ہو گی کیونکہ وہ صریح ہے۔ واللہ أعلم۔ ابن جمیل کے متعلق بھی وضاحت کر دینا ضروری ہے کہ وہ اسلام لانے سے قبل غریب اور نادار تھا، اسلام کی برکت سے مالدار بن گیا، اب وہ زکاۃ دینے سے روگردانی کرتا ہے، کیا اسلام کے احسان کا یہی بدلہ ہے؟ (فتح الباري:421/3)