صحیح بخاری
4. کتاب: وضو کے بیان میں
11. باب:اس مسئلہ میں کہ پیشاب اور پاخانہ کے وقت قبلہ کی طرف منہ نہیں کرنا چاہیے۔لیکن جب کسی عمارت یا دیوار وغیرہ کی آڑ ہو تو کچھ حرج نہیں۔
Sahi-Bukhari
4. Ablutions (Wudu')
11. Chapter: While urinating or defecating, never face the Qiblah except when you are screened by a building or a wall or something like that
باب:اس مسئلہ میں کہ پیشاب اور پاخانہ کے وقت قبلہ کی طرف منہ نہیں کرنا چاہیے۔لیکن جب کسی عمارت یا دیوار وغیرہ کی آڑ ہو تو کچھ حرج نہیں۔
)
Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: While urinating or defecating, never face the Qiblah except when you are screened by a building or a wall or something like that)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
147.
حضرت ابو ایوب انصاری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب کوئی قضائے حاجت کے لیے جائے تو قبلے کی طرف نہ منہ کرے اور نہ پشت، بلکہ مشرق یا مغرب کی طرف منہ کیا کرو۔‘‘
تشریح:
1۔ عنوان بندی کے متعلق امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی یہ عادت ہے کہ وہ ان کے ذریعے سے بظاہر دومتعارض احادیث کے درمیان تطبیق کی صورت بیان کرتے ہیں۔ یہی صورت حال اس جگہ ہے۔ مذکورہ روایت تحریم پر دلالت کرتی ہے کہ کسی صورت میں کعبے کی طرف قضائے حاجت کے وقت نہ منہ کرنا جائز ہے اور نہ اس کی طرف پشت ہی کرنا جائز ہے۔ اور اگلی روایت، جو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، اس میں تفریق ہے کہ اگر صحرا میں قضائے حاجت کی ضرورت ہو تو کعبے کی طرف منہ اور پشت کرنا منع ہے لیکن عمارات یا چاردیواری کے اندر جائز ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان میں تعارض بایں طور ختم کیا ہے کہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کو فضا کے ساتھ خاص کردیا ہے۔ کہ جنگلات یا میدان میں کعبے کی طرف منہ اور پشت کرنا دونوں ہی منع ہیں، البتہ اگر دیوار کی آڑ ہو یا بیت الخلاء کسی عمارت میں ہو تو کوئی حرج نہیں۔ 2۔ قبلے کی طرف منہ یا پشت کرکے قضائے حاجت کرنا جائز ہے یا ناجائز؟ یہ مسئلہ سلف صالحین سے مختلف فیہ چلا آرہا ہے اور اس کی وجہ جواز اور عدم جواز کے دلائل کا بظاہر متعارض ہونا ہے۔ جہاں تک کھلی فضا میں قضائے حاجت کا تعلق ہے تو اس صورت میں بالاتفاق منہ اور پشت کرنا دونوں ممنوع ہیں، تاہم اگر قضائے حاجت کرنے والا کسی عمارت وغیرہ میں ہو تو اس صورت میں اختلاف ہے۔ علماء کی اس بارے میں درج ذیل چار رائے ہیں: (الف)۔ منہ اور پشت دونوں ممنوع ہیں، خواہ صحرا ہو یا عمارت۔ ان کی دلیل ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی درج بالا روایت ہے اور وہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت پر محمول کرتے ہیں۔ (ب)۔ کھلی فضا اور عمارات میں قبلے کی طرف منہ اور پشت کرنا دونوں امر جائز ہیں۔ ان حضرات کے نزدیک ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث ناسخ اور ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث منسوخ ہے۔ اور بعض نے اس کے برعکس بھی کہا ہے۔ (ج)۔ قبلہ رخ منہ کرنا صحرا اورعمارت دونوں میں منع ہے البتہ عمارت میں پشت کی جا سکتی ہے اس موقف کی دلیل بھی حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما ہے۔ ان حضرات کےنزدیک کیونکہ حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما میں کعبے کی طرف صرف پشت کرنے کا ذکر ہے۔ اس لیے پشت کرنا عمارت میں جائز ہے۔(د)۔ کھلی فضا میں قبلے کی طرف منہ اور پشت کرنا، دونوں ممنوع ہیں اور عمارات وغیرہ میں دونوں کا جواز ہے۔ البتہ بچنا افضل ہے۔ ان کی دلیل ابن عمر رضی اللہ عنہما کی آئندہ حدیث اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سنن ابی داؤد وغیرہ(حدیث:13) کی احادیث ہیں جن میں عمارات میں استقبال اور استدبار دونوں کا جواز ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ باب سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک یہی چوتھا موقف راجح ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ دیگرمحدثین کے قائم کردہ ابواب سے ان کا رجحان بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ اس موقف کی وجہ ترجیح یہ ہے کہ پہلا موقف اس لیے درست نہیں کہ کسی بھی فعل میں اصل عدم تخصیص ہے، خصوصیت قراردینے کے لیے دلیل کی ضرورت ہے جویہاں نہیں ہے۔ پھر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سےعموم ہی سمجھا ہے، اسے آپ کی خصوصیت قرار نہیں دیا۔ دوسرا موقف اس لیے مرجوح ہے کہ بظاہر تاہم متعارض احادیث میں سب سے پہلے تطبیق دی جاتی ہے نہ کہ ناسخ ومنسوخ دیکھا جاتا ہے۔ جب تطبیق ممکن ہوتو پھر ناسخ ومنسوخ نہیں دیکھا جاتا اور یہاں تطبیق ممکن ہے۔ تیسرا موقف، جس میں منہ اور پشت کا فرق ملحوظ رکھا گیا ہے، بھی مرجوح ہے کیونکہ استقبال اور استدبار ایک ہی چیز ہے، پھر حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات سے ایک سال پہلے دیکھا کہ آپ قبلہ رخ ہوکر قضائے حاجت کر رہے تھے۔ (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 13) اس لیے استقبال اور استدبار کا فرق بھی درست نہیں۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں وارد ممانعت کو نہی تنزیہی پر محمول کیا جائے گا اور ابن عمر رضی اللہ عنہما اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی احادیث میں مذکور آپ کا فعل بیان جواز کے لیے ہو گا کہ بہتر اور افضل یہی ہے کہ میدانی علاقہ ہو یا عمارت ہر دو صورتوں میں قبلہ رخ ہو کر قضائے حاجت سے اجتناب کیا جائے، تاہم اگر عمارت میں کوئی ایسا کرلے تو وہ گناہگار نہ ہو گا۔ اس کی تائید حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «من لم يستقبل القبلة ولم يستدبرها في الغائط كُتِب له حسنة ومُحي عنه سيئة» ’’جو شخص قضائے حاجت کرتے وقت قبلے کی طرف منہ اور پیٹھ نہ کرے اس کے لیے (ہربار) ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے۔اور اس کی ایک بُرائی مٹا دی جاتی ہے۔‘‘ (المعجم الأوسط للطبراني: 362/1، حدیث: 1321، و الصحیحة للألباني: 88/3) 3۔ قضائے حاجت کے وقت مشرق یا مغرب کی طرف منہ کرنے کا خطاب اہل مدینہ سے ہے کیونکہ مدینہ منورہ کے اعتبار سے قبلہ جنوب کی طرف ہے۔ برصغیر میں رہنے والوں کے لیے قبلہ مغرب کی طرف ہے، لہذا ہمارے لیے جنوب اور شمال کی طرف منہ کرنے کی ہدایت ہے، لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الصلاۃ، باب: 29 میں وضاحت کی ہے کہ مشرق ومغرب میں کوئی قبلہ نہیں ہے، شاید اس سے ان لوگوں کا قبلہ مراد ہے جو مکے سے جنوب یا شمال میں رہتے ہیں۔ (فتح الباري: 324/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
146
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
144
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
144
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
144
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
حضرت ابو ایوب انصاری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب کوئی قضائے حاجت کے لیے جائے تو قبلے کی طرف نہ منہ کرے اور نہ پشت، بلکہ مشرق یا مغرب کی طرف منہ کیا کرو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ عنوان بندی کے متعلق امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی یہ عادت ہے کہ وہ ان کے ذریعے سے بظاہر دومتعارض احادیث کے درمیان تطبیق کی صورت بیان کرتے ہیں۔ یہی صورت حال اس جگہ ہے۔ مذکورہ روایت تحریم پر دلالت کرتی ہے کہ کسی صورت میں کعبے کی طرف قضائے حاجت کے وقت نہ منہ کرنا جائز ہے اور نہ اس کی طرف پشت ہی کرنا جائز ہے۔ اور اگلی روایت، جو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، اس میں تفریق ہے کہ اگر صحرا میں قضائے حاجت کی ضرورت ہو تو کعبے کی طرف منہ اور پشت کرنا منع ہے لیکن عمارات یا چاردیواری کے اندر جائز ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان میں تعارض بایں طور ختم کیا ہے کہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کو فضا کے ساتھ خاص کردیا ہے۔ کہ جنگلات یا میدان میں کعبے کی طرف منہ اور پشت کرنا دونوں ہی منع ہیں، البتہ اگر دیوار کی آڑ ہو یا بیت الخلاء کسی عمارت میں ہو تو کوئی حرج نہیں۔ 2۔ قبلے کی طرف منہ یا پشت کرکے قضائے حاجت کرنا جائز ہے یا ناجائز؟ یہ مسئلہ سلف صالحین سے مختلف فیہ چلا آرہا ہے اور اس کی وجہ جواز اور عدم جواز کے دلائل کا بظاہر متعارض ہونا ہے۔ جہاں تک کھلی فضا میں قضائے حاجت کا تعلق ہے تو اس صورت میں بالاتفاق منہ اور پشت کرنا دونوں ممنوع ہیں، تاہم اگر قضائے حاجت کرنے والا کسی عمارت وغیرہ میں ہو تو اس صورت میں اختلاف ہے۔ علماء کی اس بارے میں درج ذیل چار رائے ہیں: (الف)۔ منہ اور پشت دونوں ممنوع ہیں، خواہ صحرا ہو یا عمارت۔ ان کی دلیل ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی درج بالا روایت ہے اور وہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت پر محمول کرتے ہیں۔ (ب)۔ کھلی فضا اور عمارات میں قبلے کی طرف منہ اور پشت کرنا دونوں امر جائز ہیں۔ ان حضرات کے نزدیک ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث ناسخ اور ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث منسوخ ہے۔ اور بعض نے اس کے برعکس بھی کہا ہے۔ (ج)۔ قبلہ رخ منہ کرنا صحرا اورعمارت دونوں میں منع ہے البتہ عمارت میں پشت کی جا سکتی ہے اس موقف کی دلیل بھی حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما ہے۔ ان حضرات کےنزدیک کیونکہ حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما میں کعبے کی طرف صرف پشت کرنے کا ذکر ہے۔ اس لیے پشت کرنا عمارت میں جائز ہے۔(د)۔ کھلی فضا میں قبلے کی طرف منہ اور پشت کرنا، دونوں ممنوع ہیں اور عمارات وغیرہ میں دونوں کا جواز ہے۔ البتہ بچنا افضل ہے۔ ان کی دلیل ابن عمر رضی اللہ عنہما کی آئندہ حدیث اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سنن ابی داؤد وغیرہ(حدیث:13) کی احادیث ہیں جن میں عمارات میں استقبال اور استدبار دونوں کا جواز ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ باب سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک یہی چوتھا موقف راجح ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ دیگرمحدثین کے قائم کردہ ابواب سے ان کا رجحان بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ اس موقف کی وجہ ترجیح یہ ہے کہ پہلا موقف اس لیے درست نہیں کہ کسی بھی فعل میں اصل عدم تخصیص ہے، خصوصیت قراردینے کے لیے دلیل کی ضرورت ہے جویہاں نہیں ہے۔ پھر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سےعموم ہی سمجھا ہے، اسے آپ کی خصوصیت قرار نہیں دیا۔ دوسرا موقف اس لیے مرجوح ہے کہ بظاہر تاہم متعارض احادیث میں سب سے پہلے تطبیق دی جاتی ہے نہ کہ ناسخ ومنسوخ دیکھا جاتا ہے۔ جب تطبیق ممکن ہوتو پھر ناسخ ومنسوخ نہیں دیکھا جاتا اور یہاں تطبیق ممکن ہے۔ تیسرا موقف، جس میں منہ اور پشت کا فرق ملحوظ رکھا گیا ہے، بھی مرجوح ہے کیونکہ استقبال اور استدبار ایک ہی چیز ہے، پھر حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات سے ایک سال پہلے دیکھا کہ آپ قبلہ رخ ہوکر قضائے حاجت کر رہے تھے۔ (سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 13) اس لیے استقبال اور استدبار کا فرق بھی درست نہیں۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں وارد ممانعت کو نہی تنزیہی پر محمول کیا جائے گا اور ابن عمر رضی اللہ عنہما اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی احادیث میں مذکور آپ کا فعل بیان جواز کے لیے ہو گا کہ بہتر اور افضل یہی ہے کہ میدانی علاقہ ہو یا عمارت ہر دو صورتوں میں قبلہ رخ ہو کر قضائے حاجت سے اجتناب کیا جائے، تاہم اگر عمارت میں کوئی ایسا کرلے تو وہ گناہگار نہ ہو گا۔ اس کی تائید حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «من لم يستقبل القبلة ولم يستدبرها في الغائط كُتِب له حسنة ومُحي عنه سيئة» ’’جو شخص قضائے حاجت کرتے وقت قبلے کی طرف منہ اور پیٹھ نہ کرے اس کے لیے (ہربار) ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے۔اور اس کی ایک بُرائی مٹا دی جاتی ہے۔‘‘ (المعجم الأوسط للطبراني: 362/1، حدیث: 1321، و الصحیحة للألباني: 88/3) 3۔ قضائے حاجت کے وقت مشرق یا مغرب کی طرف منہ کرنے کا خطاب اہل مدینہ سے ہے کیونکہ مدینہ منورہ کے اعتبار سے قبلہ جنوب کی طرف ہے۔ برصغیر میں رہنے والوں کے لیے قبلہ مغرب کی طرف ہے، لہذا ہمارے لیے جنوب اور شمال کی طرف منہ کرنے کی ہدایت ہے، لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الصلاۃ، باب: 29 میں وضاحت کی ہے کہ مشرق ومغرب میں کوئی قبلہ نہیں ہے، شاید اس سے ان لوگوں کا قبلہ مراد ہے جو مکے سے جنوب یا شمال میں رہتے ہیں۔ (فتح الباري: 324/1)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابن ابی ذئب نے، کہا کہ ہم سے زہری نے عطاء بن یزید اللیثی کے واسطے سے نقل کیا، وہ حضرت ابوایوب انصاری ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی پاخانے میں جائے تو قبلہ کی طرف منہ کرے نہ اس کی طرف پشت کرے (بلکہ) مشرق کی طرف منہ کر لو یا مغرب کی طرف۔
حدیث حاشیہ:
یہ حکم مدینہ والوں کے لیے خاص ہے۔ کیونکہ مدینہ مکہ سے شمال کی طرف واقع ہے۔ اس لیے آپ نے قضاءحاجت کے وقت پچھم یا پورب کی طرف منہ کرنے کا حکم فرمایا۔ یہ بیت اللہ کا ادب ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے حدیث کے عنوان سے یہ ثابت کرنا چاہا ہے کہ اگرکوئی آڑ سامنے ہو تو قبلہ کی طرف منہ یا پشت کر سکتا ہے۔ آپ نے جو حدیث اس باب میں ذکر کی ہے وہ ترجمہ باب کے مطابق نہیں ہوتی کیونکہ حدیث سے مطلق ممانعت نکلتی ہے اور ترجمہ باب میں عمارت کو مستثنیٰ کیا ہے۔ بعضوں نے کہا ہے کہ آپ نے یہ حدیث محض ممانعت ثابت کرنے کے لیے ذکر کی ہے اور عمارت کا استثناءآگے والی حدیث سے نکالا ہے جو ابن عمر سے مروی ہے۔ بعضوں نے لفظ غائط سے صرف میدان مراد لیا ہے اور اس ممانعت سے سمجھا گیا کہ عمارت میں ایسا کرنا درست ہے۔ حضرت مولانا شیخ الحدیث مولانا عبیداللہ مبارک پوری نے اس بارے میں دلائل طرفین پر مفصل روشنی ڈالتے ہوئے اپنا آخری فیصلہ یہ دیا ہے "وعندي الإحتراز عن الإستقبال والإستدبار في البیوت أحوط وجوبا لا ندبا" یعنی میرے نزدیک بھی وجوباً احتیاط کا تقاضا ہے کہ گھروں میں بھی بیت اللہ کی طرف پیٹھ یا منہ کرنے سے پرہیز کیاجائے۔ (مرعاة، جلداول، ص: 241) علامہ مبارک پوری رحمہ اللہ صاحب تحفۃ الاحوذی نے بھی ایسا ہی لکھا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Aiyub Al-Ansari (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "If anyone of you goes to an open space for answering the call of nature he should neither face nor turn his back towards the Qibla; he should either face the east or the west."