تشریح:
(1) سوال کیے بغیر جو ملے اس کا لینا جائز ہے بشرطیکہ مال حرام نہ ہو۔ اگر حرام کا یقین ہو تو لینا جائز نہیں، مشتبہ ہے تو پرہیز گاری کا تقاضا ہے کہ اس قسم کے مال سے بھی اجتناب کیا جائے، تاہم لینے میں تھوڑی بہت گنجائش ضرور ہے۔ امام بخاری ؒ نے ایک آیت کا حوالہ بھی دیا ہے۔ اس کا حدیث سے تعلق بایں طور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی تعریف کی ہے جو سائل اور غیر سائل کو اپنا مال دیتا ہے، جب دینے والا اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل تعریف ہے تو اس کا عطیہ قبول اور اسے لینے والا قابل مذمت نہیں ہو گا، حدیث میں بھی یہی مضمون بیان ہوا ہے۔ (فتح الباري:426/3) ایک روایت میں اس حدیث کا سبب ورود بھی بیان ہوا ہے کہ حضرت عمر ؓ کے دور خلافت میں جناب عبداللہ بن سعدی مدینہ آئے تو ان سے حضرت عمر ؓ نے فرمایا: مجھے اطلاع ملی ہے کہ آپ لوگوں کی اجتماعی خدمت بجا لانے پر مامور ہیں لیکن اس کے لیے حق الخدمت کو ناپسند کرتے ہو۔ انہوں نے عرض کیا بالکل ایسا ہی ہے کیونکہ میرے پاس گھوڑوں، غلاموں اور مال و اسباب کی فراوانی ہے۔ میں تو اللہ کے ہاں اس کا اجر لینے کا خواہاں ہوں۔ اس پر حضرت عمر ؓ نے فرمایا: ایسا مت کیا کرو، اس کے بعد وہ حدیث بیان کی جو مذکور ہے۔ اس میں یہ اضافہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب بن مانگے اور لالچ کے بغیر تجھے ملے اسے مال قرار دے کر اس سے صدقہ وغیرہ کیا کرو۔‘‘ (صحیح البخاري، الأحکام، حدیث:7163)