تشریح:
(1) درختوں پر لگے ہوئے پھلوں کا کسی تجربہ کار سے اندازہ لگوانا خرص کہلاتا ہے، کھجور یا انگور جب پک جائیں تو حاکم وقت کسی تجربہ کار اندازہ لگانے والے کو بھیجتا ہے کہ وہ باغ کو دیکھ کر اندازہ کرے کہ اس سے کتنا خشک پھل اترے گا، پھر اس اندازے کے مطابق اس پر عشر واجب ہوتا ہے، اندازہ کردہ مقدار سے اخراجات کو منہا کر دیا جاتا ہے۔ (2) جمہور علماء کے نزدیک کھجوروں اور انگوروں کا اندازہ لگانا صحیح ہے اور اس قاعدے کے مطابق عشر وصول کرنا جائز ہے لیکن احناف اسے نہیں مانتے۔ ان کے نزدیک مالک کے قبضے میں جو مقدار ہو گی وہ اس سے عشر ادا کرے، خواہ وہ اندازے سے کم ہو یا زیادہ، لیکن اسلامی نقطہ نظر کے مطابق زکاۃ وصول کرنے والوں کو درختوں پر موجود انگور اور تر کھجور کے تخمینے کے لیے بھیجنا مشروع ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فتح خیبر کے بعد حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ کو اہل خیبر کی کھجوروں کا اندازہ لگانے کے لیے بھیجا تھا۔ (سنن ابن ماجة، الزکاة، حدیث:1820) حافظ ابن حجر ؒ نے صحیح ابن حبان کے حوالے سے ایک مرفوع حدیث بیان کی ہے: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم درختوں پر پھل کا اندازہ کرو تو اس سے ایک تہائی منہا کرو، اگر ایک تہائی نہیں چھوڑ سکتے تو کم از کم ایک چوتھائی ضرور چھوڑ دو۔ (سنن أبي داود، الزکاة، حدیث:1605، وسنن النسائي، الزکاة، حدیث:2491) حضرت عتاب بن اسید ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انگور کی زکاۃ اس طرح انداز لگا کر ادا کرنے کا حکم دیا جس طرح کھجوروں کی زکاۃ اندازہ لگا کر ادا کی جاتی ہے، نیز انگور کی زکاۃ منقے سے دی جائے جس طرح تازہ کھجوروں کی زکاۃ خشک کھجوروں سے دی جاتی ہے۔ (جامع الترمذي، الزکاة، حدیث:644) اس کا مطلب یہ ہے کہ زکاۃ کی مقدار کا تعیین اندازے سے ہو گا لیکن زکاۃ کی ادائیگی خشک پھل سے ہو گی، ان کے علاوہ دیگر غلوں کا اندازہ لگانا صحیح نہیں۔ واللہ أعلم