تشریح:
(1) پہلی حدیث حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ جس زمین کو بارش اور چشموں نے سیراب کیا ہو اس میں دسواں حصہ ہے اور دوسری حدیث ابو سعید خدری ؓ سے مروی ہے کہ پانچ وسق سے کم مقدار پیداوار میں کوئی صدقہ نہیں ہے، جو اس کے بعد بیان ہو گی، اس دوسری حدیث، یعنی حدیث ابو سعید خدری نے پہلی حدیث کی تفسیر کی ہے کہ مطلق طور پر تمام پیداوار سے نہیں بلکہ جب وہ پانچ وسق مقدار ہو گی تو اس سے عشر وصول کیا جائے گا، اس وضاحت سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری ؒ کا مذکورہ نوٹ حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی حدیث کے بعد ہے، دراصل یہ دونوں احادیث ایک دوسرے کی تفسیر کرتی ہيں، کیونکہ عبداللہ بن عمر ؓ کی حدیث میں نصاب کی تعیین نہیں ہے، اسے ابو سعید خدری ؓ کی حدیث سے مقرر کیا جائے گا اور حضرت ابو سعید خدری کی حدیث میں عشر یا نصف عشر کی تفصیل نہیں ہے، اسے عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی حدیث سے اخذ کیا جائے گا، چونکہ امام بخاری ؒ نے ایک اصول بیان کیا ہے کہ اگر کسی روایت میں ابہام ہے تو اسے دوسری روایات سے دور کیا جائے گا اور اگر کسی روایت میں اضافہ ہے تو اسے قبول کیا جائے گا بشرطیکہ اس اضافے کو بیان کرنے والا عادل اور ثقہ راوی ہو جیسا کہ آپ نے حضرت بلال ؓ کا حوالہ دیا ہے کہ وہ کہتے ہیں: رسول الله ﷺ نے کعبہ شریف میں نماز پڑھی اور حضرت فضل بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ آپ نے بیت اللہ کے اندر نماز نہیں پڑھی، چونکہ حضرت بلال ؓ ایک اضافی چیز بیان کرتے ہیں، اس لیے فیصلہ انہی کے بیان پر ہو گا کہ واقعی رسول اللہ ﷺ نے بیت اللہ کے اندر نماز ادا کی ہے، اسی طرح پیداوار کے متعلق فیصلہ کن روایت وہ ہے جس میں نصاب کی تعیین ہے، یا جس میں عشر اور نصف عشر کی تفصیل ہے۔ (2) عشر، زمین کی کس قسم کی پیداوار سے کتنا ادا کرنا پڑتا ہے، اس کی تفصیل حسبِ ذیل ہے: عشر کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ﴾ (الانعام141:6) ’’فصل کاٹتے ہی اس سے اللہ کا حق ادا کرو۔‘‘ نیز قرآن کریم میں ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ﴾ (البقرۃ267:2) ’’اے ایمان والو! ان پاکیزہ چیزوں میں سے خرچ کرو جو تم نے کمائی ہیں اور ان میں سے بھی جنہیں ہم نے تمہارے لے زمین سے پیدا کیا ہے۔‘‘ پہلی آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کے حق سے مراد وہ صدقہ ہے جو اللہ کے نام پر زمین کی پیداوار سے فقراء و مساکین کو دیا جائے، کیونکہ یہ فصل اللہ ہی نے اپنے فضل و کرم سے پیدا کی ہے، اس مقام پر اس ’’حق‘‘ کی مقدار معین نہیں کی گئی بلکہ اس کا تعین خود رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں ہے: ’’وہ زمین جسے بارش یا قدرتی چشمے کا پانی سیراب کرتا ہو، یا وہ کسی دریا کے کنارے ہونے کی وجہ سے خودبخود سیراب ہو جاتی ہو، اس قسم کی زمین کی پیداوار سے دسواں حصہ بطور عشر لیا جائے گا اور وہ زمین جسے کنویں وغیرہ سے پانی کھینچ کر سیراب کیا جاتا ہو، اس کی پیداوار سے نصف العشر، یعنی بیسواں حصہ لیا جائے گا۔‘‘ اس حدیث میں پیداوار دینے والی زمین کی حقیقت اور اس کی پیداوار پر مقدار عشر کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ شریعت نے مقدار عشر کے لیے زمین کی سیرابی، یعنی پیداوار لینے کے لیے پانی کو مدار قرار دیا ہے۔ اگر کھیتی کو سیراب کرنے کے لیے پانی بسہولت دستیاب ہے، اس پر کسی قسم کی محنت یا مشقت نہیں اٹھانی پڑتی تو اس میں پیداوار کا عشر، یعنی دسواں حصہ بطور زکاۃ نکالنا ہو گا۔ اس کے برعکس اگر پانی حاصل کرنے کے لیے محنت و مشقت اُٹھانی پڑتی ہو یا اخراجات برداشت کرنا پڑیں تو اس میں نصف العشر، یعنی بیسواں حصہ ہے۔ (3) ہمارے ہاں عام طور پر زمینوں کی آبپاشی دو طرح سے ہے: ٭ نہر کا پانی: حکومت نے اس کے لیے ایک مستقل محکمہ ’’انہار‘‘ قائم کر رکھا ہے، اس پر زمیندار کو محنت و مشقت کے علاوہ اخراجات بھی برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ آبیانہ وغیرہ ادا کرنا ہوتا ہے، اس کے باوجود نہری پانی فصلوں کے لیے کافی نہیں ہوتا، اس کے لیے دوسرے ذرائع سے ضروریات کو پورا کیا جاتا ہے۔ ٭ ٹیوب ویل: اول تو ٹیوب ویل لگانے کے لیے کافی رقم درکار ہوتی ہے، جب اس کی تنصیب مکمل ہو جاتی ہے تو محکمہ واپڈا کا رحم و کرم شروع ہو جاتا ہے، اس کا کنکشن حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، اس کے بعد تیسرا مرحلہ جو مسلسل جاری رہتا ہے وہ ماہ بماہ کمر توڑ اور اعصاب شکن بجلی کے بل کی ادائیگی سے یا پھر گھنٹے کے حساب سے پانی خرید کر فصل کو سیراب کیا جاتا ہے، لہذا زمین سے پیداوار لینے کے لیے ذاتی محنت و مشقت اور مالی اخراجات کے پیش نظر ہمارے ہاں پیداوار پر نصف عشر، یعنی بیسواں حصہ بطور زکاۃ دینا ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ اس کے علاوہ جتنے بھی اخراجات ہیں ان کا تعلق زمین کی سیرابی یا آبپاشی سے نہیں بلکہ وہ اخراجات زمیندار پیداوار بچانے یا بڑھانے کے لیے کرتا ہے، مثلا: کھاد یا سپرے وغیرہ، پھر زمیندار اپنی محنت و مشقت سے بچنے اور اپنی سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے کچھ اخراجات کرتا ہے، مثلا: بوتے وقت ٹریکٹر کا استعمال، کٹائی کے وقت مزدور لگانا یا فصل اُٹھاتے وقت تھریشر کا استعمال ہوتا ہے۔ (4) مذکورہ حدیث میں مقدار جنس کو بیان نہیں کیا گیا، یعنی کتنے نصاب پر عشر واجب ہوتا ہے؟ اس کی وضاحت ایک دوسری حدیث میں ہے جو آئندہ بیان ہو گی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’پانچ وسق سے کم پیداوار میں زکاۃ، یعنی عشر نہیں ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، الزکاة، حدیث:1484) وسق کی مقدار آئندہ حدیث کے فوائد میں ذکر کریں گے۔ رسول اللہ ﷺ کے دور میں عام طور پر مہاجرین تاجر اور انصار زراعت پیشہ تھے، وہ لوگ زمین کو خود کاشت کرتے تھے اور خود ہی کاٹتے اور فصل اُٹھاتے تھے، زمین کی سیرابی کے لیے انہیں محنت و مشقت اور اخراجات برداشت کرنے کی وجہ سے پیداوار سے بیسواں حصہ بطور عشر ادا کرنا ضروری تھا، اس کے علاوہ کسی قسم کے اخراجات پیداوار سے ضبط نہیں کیے جاتے تھے۔ ہمارے ہاں قدرتی وسائل سے سیراب ہونے والی زمینیں بہت کم ہیں جن سے پیداوار کا دسواں حصہ لیا جاتا ہے۔ (5) اب عشر کے متعلق کچھ وضاحتیں پیش خدمت ہیں: ٭ زرعی زکاۃ کے لیے سال گزرنے کی شرط نہیں ہے بلکہ جب بھی فصل کاٹی جائے اسی وقت زکاۃ واجب ہو گی جیسا کہ درج ذیل آیت کریمہ سے معلوم ہوتا ہے: ﴿وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ﴾ ’’فصل کاٹتے وقت ہی اس سے اللہ کا حق ادا کرو۔‘‘ (الأنعام141:6) ٭ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں گندم، جو، منقی اور کھجور سے زکاۃ لی جاتی تھی مگر ہمارے ہاں اور بھی اجناس بکثرت پیدا ہوتی ہیں، مثلا: چاول، چنے، جوار، باجرہ اور مکئی وغیرہ، ان سب اجناس پر زکاۃ واجب ہوتی ہے جسے ادا کرنا ضروری ہے۔ ٭ ایسی سبزیاں اور ترکاریاں جو جلدی خراب نہیں ہوتی، مثلا: آلو، پیاز، لہسن، ادرک، اور پیٹھا وغیرہ ان پر بھی زرعی زکاۃ، یعنی عشر واجب ہو گا، لیکن جو ترکاریاں تازہ استعمال ہوتی ہیں اور جلدی خراب ہو جاتی ہیں، مثلا: کدو، ٹینڈا، کریلے اور توریاں وغیرہ ان پر زرعی زکاۃ نہیں بلکہ ان کے منافع پر تجارتی زکاۃ لاگو ہو گی بشرطیکہ وہ نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر سال گزر جائے، اس سے اڑھائی فیصد یا چالیسواں حصہ ادا کرنا ہوتا ہے۔ ٭ پھلوں میں بھی زرعی زکاۃ ہے بشرطیکہ انہیں دیر تک استعمال کیا جائے۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں منقی اور کھجور سے عشر ادا کیا جاتا تھا لیکن ہمارے ہاں ان کے علاوہ اور بھی بہت سے خشک پھل ہیں، مثلا: اخروٹ، بادام، خوبانی اور مونگ پھلی وغیرہ، اگر اس قسم کے پھل حد نصاب کو پہنچ جائیں تو ان پر زرعی زکاۃ واجب ہو گی۔ ٭ کپاس بھی زمینی پیداوار ہے اور ہمارے ملک میں خاصی منفعت بخش فصل ہے، لہذا اس سے بھی عشر ادا کرنا ہو گا، یعنی بیس من میں سے ایک من بطور عشر ادا کیا جائے۔ اگر کوئی کاشتکار تجارت پیشہ بھی ہے تو اسے چاہیے کہ اگر کپاس کی پیداوار حد نصاب کو پہنچ جائے تو اس سے پہلے عشر ادا کرے اور پھر اگر اسے تجارت میں فروخت کر دیتا ہے تو اس کی رقم اگر حد نصاب کو پہنچ جائے تو تجارتی زکاۃ بھی ادا کرے، یعنی کھیتی کا حساب الگ ہو گا اور تجارتی مال کی زکاۃ کا حساب الگ ہو گا، تجارتی مال کی رقم کسی مد میں بھی آئے اس پر زکاۃ ادا کرنا ضروری ہے۔ ٭ ہمارے بعض علاقوں میں گنا بھی کاشت کیا جاتا ہے۔ اگر اسے ملوں میں فروخت کر دیا جائے تو اس سے تجارتی زکاۃ دینا ہو گی اور اگر اسے بطور چارہ حیوانات کو کھلا دیا جائے تو قابل معافی ہے۔ اگر اس کماد سے گڑ، شکر یا چینی بنائی جائے تو اس سے عشر دینا ہو گا بشرطیکہ حد نصاب کو پہنچ جائے۔ ٭ اگر کسی نے اپنی زمین کسی دوسرے کو عاریتا بطور کاشت دی ہے تو اس صورت میں جس نے فصل اٹھائی ہے وہی اس کا عشر ادا کرے گا، مالک زمین کے ذمے اس کی ادائیگی نہیں کیونکہ اسے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اگر زمین کے مالک نے کسی دوسرے کو طے شدہ حصے پر کاشت کرنے کے لیے دی ہے تو اس صورت میں دو موقف ہیں: (ا) ہر ایک کا حصہ اگر حد نصاب کو پہنچ جائے تو اس سے عشر دینا ہو گا، اگر کسی کا بھی حصہ حد نصاب کو نہیں پہنچتا تو کسی پر بھی عشر واجب نہیں، یعنی جس شخص کا حصہ نصاب کو پہنچ جائے اسے اپنے حصے سے عشر دینا ہو گا۔ (ب) امام شافعی اور امام احمد ؒ کا موقف یہ ہے کہ اگر مجموعی پیداوار حد نصاب کو پہنچ جائے تو ہر ایک اپنے حصے کے مطابق عشر ادا کرے، پھر دونوں طے شدہ حصوں کے مطابق پیداوار کو تقسیم کر لیں۔ ہمارے نزدیک یہ دوسرا موقف زیادہ وزنی ہے، نیز اس میں غرباء اور مساکین کا بھی فائدہ ہے۔