تشریح:
(1) اس حدیث میں پیداوار کی اس مقدار کا بیان ہے جس میں عشر واجب ہوتا ہے اور وہ پانچ وسق ہے۔ اس سے کم میں نہیں ہوتا ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے، گویا نصاب جنس 5×60=300 صاع ہیں۔ جدید اعشاری نظام کے مطابق ایک صاع دو کلو اور سو گرام کا ہوتا ہے۔ اس حساب سے پانچ وسق جنس کے 630 کلوگرام بنتے ہیں، یعنی اگر اتنی مقدار میں جنس موجود ہو تو اس پر بیسواں حصہ دینا ہو گا، بعض اہل علم کے نزدیک ایک صاع اڑھائی کلوگرام کے مساوی ہے، لہذا ان کے ہاں پیداوار کا نصاب 750 کلوگرام ہے۔ غرباء اور مساکین کی ضروریات کے پیش نظر پیداوار کا 630 کلوگرام وزن مقرر کیا جانا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ (2) اگر کسی نے زمین ٹھیکے پر حاصل کی ہے تو زمیندار چونکہ اس کا اصل مالک ہوتا ہے، اس لیے وہ ٹھیکے کی اس رقم کو اپنی مجموعی آمدنی میں شامل کرے اور اگر وہ نصاب کو پہنچ جائے تو اس سے زکاۃ ادا کرے۔ اور زمین ٹھیکے پر لینے والا کاشت کرنے میں صاحب اختیار ہوتا ہے اور پیداوار کا مالک بھی وہی ہوتا ہے تو وہ مختار ہونے کی حیثیت سے پیداوار کا عشر ادا کرے گا اور ٹھیکے کی رقم اس سے منہا (نکالی) نہیں کی جائے گی۔ اسی طرح وہ اپنی سہولت کے لیے یا اپنی پیداوار بڑھانے کے لیے جو رقم خرچ کرتا ہے یہ بھی پیداوار سے منہا (نکالی) نہیں کیا جائے گی، البتہ محنت و مشقت یا مالی اخراجات جو زمین کی سیرابی پر آتے ہیں ان کے پیش نظر شریعت نے اسے یہ رعایت دی ہے کہ وہ اپنی پیداوار سے دسواں حصہ دینے کے بجائے بیسواں حصہ ادا کرے، اگر اس رعایت کے باوجود ٹھیکے کی رقم، کھاد اور سپرے کے اخراجات، کٹائی کے لیے مزدوری اور تھریشر وغیرہ کے اخراجات بھی منہا کر دیے جائیں تو باقی کیا بچے گا جو عشر کے طور پر ادا کیا جائے گا، لہذا اس سلسلے میں ہمارا رجحان یہ ہے کہ ٹھیکے کی زمین سے ٹھیکے کی رقم پیداوار سے منہا نہیں ہو گی، بلکہ وہ اپنی مجموعی پیداوار سے بیسواں حصہ بطور عشر ادا کرے بشرطیکہ اس کی پیداوار پانچ وسق (630 کلوگرام) تک پہنچ جائے۔ اگر اس سے کم ہے تو عشر نہیں ہو گا، ہاں! اگر مالک چاہے تو دینے پر قدغن نہیں، اللہ تعالیٰ ایسا کرنے سے اس کے رزق میں مزید اضافہ اور برکت عطا فرمائے گا۔