تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ استنجا کے سلسلے میں دوسرے سے مدد لینا جائز ہے، مثلاً: پانی کی ضرورت ہو تو خدمت گزار سے طلب کیا جا سکتا ہے۔ ایسا کرنا نہ تو مخدوم کے لیے استکبار ہے اور نہ خادم ہی کے لیے عار ہے۔ چھوٹوں کا بڑوں کی خدمت کرنا یا بڑوں کا چھوٹوں سے خدمت لینا دونو ں باتیں جائز ہیں۔ اس سلسلے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک قول پیش کیا ہے جس کی وضاحت کچھ یوں ہے: حضرت علقمہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں جب سرزمین شام گیا تو مسجد میں دو رکعت نماز ادا کی اور اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی: اے اللہ! مجھے کسی نیک آدمی کی صحبت عطا فرما، چنانچہ مجھے سامنے سے ایک بزرگ آتے ہوئے نظر آئے، جب وہ میرے قریب ہوئے تو میں نے اپنے دل میں کہا شاید میری دعا قبول ہوگئی ہے۔ انھوں نے پوچھا: تم کہاں سے آئے ہو؟ میں نے عرض کیا: کوفے کا رہنے والا ہوں۔ انھوں نے فرمایا: کیا تمہارے ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نعلین مبارک، آب طہارت اور تکیہ وغیرہ اٹھانے والے نہیں ہیں؟ (صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیه وسلم، حدیث: 3761) یعنی جب تمہارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرنے والے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے حضرات موجود ہیں تو تمھیں یہ تمنا کیوں پیدا ہوئی کہ مجھے کسی اچھے آدمی کی صحبت میسر آئے۔
2۔ حدیث میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ جس لڑکے کا ذکر ہے، حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں، یہ ضروری نہیں کہ چھوٹی عمر والے ہی پر لفظ "غلام" کا اطلاق ہوتا ہو، بلکہ مجازی طور پر بڑے پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ایک مرتبہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فرمایا تھا کہ تو ایک عقلمند "غلام" ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ لفظ استعمال کیا تھا۔ (صحیح البخاري، بدء الخلق، حدیث: 3207) بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طہارت کے لیے پانی وغیرہ کا اہتمام حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورحضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی کیا کرتے تھے۔ ممکن ہے کہ روایت میں "غلام" سے مراد ان حضرات میں سے کوئی ہو۔ (فتح الباري: 331/1)