باب:اس بارے میں کہ گھروں میں قضاء حاجت کرنا ثابت ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Ablutions (Wudu')
(Chapter: To defecate in houses)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
152.
حضرت ابن عمر ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا میں ایک دن اپنے گھر کی چھت پر چڑھا تو دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ دو اینٹوں پر بیٹھے بیت المقدس کی طرف منہ کیے قضائے حاجت کر رہے ہیں۔
تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے باب میں ثابت کیا تھا کہ بوقت ضرورت عورتوں کا گھر سے باہرنکلنا جائز ہے بالخصوص قضائے حاجت کے لیے رات کے وقت میدانی علاقے میں جانے میں چنداں حرج نہیں۔ اس باب میں بیان فرمایا ہے کہ قضائے حاجت کے لیے عورتوں کا باہر جانا ایک ہنگامی ضرورت کے پیش نظر تھا جس کو بدل دیا گیا اور گھروں میں اس کے انتظامات کردیئے گئے۔ (فتح الباري: 329/1) نیز شیاطین کو گندگی سے طبعی مناسبت ہوتی ہے، اس لیے جو مقام انسانی حاجت کے لیے ہوتے ہیں وہاں شیاطین کا ہجوم رہتا ہے تو گویا گھروں میں بیت الخلاء تعمیرکرنا، وہاں شیاطین کے جمع ہونے کا مرکز قائم کرنا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت احادیث لا کر اس کا جواز ثابت کیا ہے کہ مکان میں ایک جانب بیت الخلاء تعمیر کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ شیطاطین تو اس گوشے میں جمع رہیں گے،البتہ ان کے بُرے اثرات سے محفوظ رہنے کے لیے اس دعا کی تلقین فرمادی جس کا پہلے ذکر ہوچکا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق احادیث میں ہے کہ قضائے حاجت کے لیے بہت دور جانا پسند کرتے تھے تاکہ آپ کو کوئی دیکھ نہ سکے۔دور جانا بجائے خود کوئی مقصد نہیں بلکہ مقصد پردہ ہے۔ اگر قریب ہی میں پردے کا اہتمام ہوجائے تو دور جانے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ گھر میں قضائے حاجت کے لیے بنائے گئے بیت الخلاء سے یہ ضرورت بدرجہ اتم پوری ہوجاتی ہے۔ 2۔ اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے دو احادیث پیش فرمائی ہیں: پہلی حدیث میں شام کی طرف منہ کرنے کا ذکر ہے اور دوسری روایت میں بیت المقدس کے الفاظ ہیں۔ چونکہ یہ دونوں ایک ہی جہت میں واقع ہیں اس لیے ان میں کوئی تضاد نہیں ہے نیز پہلی روایت میں استقبال شام کے ساتھ استدبار کعبہ کی بھی تصریح ہے۔ (فتح الباري: 325/1) 3۔ مذکورہ دونوں روایات میں واقعہ تو ایک ہی بیان ہوا ہے۔ لیکن حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ا س گھر کو ایک روایت میں اپنی ہمیشرہ حضرت حفصہ (زوجہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم) رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا گھر بتایا ہے اور دوسری روایت میں اسے اپنا گھر کہا ہے۔ اس کی توجیہ یہ بیان کی گئی ہے کہ گھر تو حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا تھا، لیکن ان کی وفات کے بعد ورثے میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آ گیا تھا، اس لیے دونوں ہی باتیں درست ہیں۔ ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ گھروں کے اندر قبلے کی طرف منہ یا پیٹھ کا رخ کرنا جائز ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
151
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
149
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
149
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
149
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
حضرت ابن عمر ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا میں ایک دن اپنے گھر کی چھت پر چڑھا تو دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ دو اینٹوں پر بیٹھے بیت المقدس کی طرف منہ کیے قضائے حاجت کر رہے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے باب میں ثابت کیا تھا کہ بوقت ضرورت عورتوں کا گھر سے باہرنکلنا جائز ہے بالخصوص قضائے حاجت کے لیے رات کے وقت میدانی علاقے میں جانے میں چنداں حرج نہیں۔ اس باب میں بیان فرمایا ہے کہ قضائے حاجت کے لیے عورتوں کا باہر جانا ایک ہنگامی ضرورت کے پیش نظر تھا جس کو بدل دیا گیا اور گھروں میں اس کے انتظامات کردیئے گئے۔ (فتح الباري: 329/1) نیز شیاطین کو گندگی سے طبعی مناسبت ہوتی ہے، اس لیے جو مقام انسانی حاجت کے لیے ہوتے ہیں وہاں شیاطین کا ہجوم رہتا ہے تو گویا گھروں میں بیت الخلاء تعمیرکرنا، وہاں شیاطین کے جمع ہونے کا مرکز قائم کرنا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت احادیث لا کر اس کا جواز ثابت کیا ہے کہ مکان میں ایک جانب بیت الخلاء تعمیر کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ شیطاطین تو اس گوشے میں جمع رہیں گے،البتہ ان کے بُرے اثرات سے محفوظ رہنے کے لیے اس دعا کی تلقین فرمادی جس کا پہلے ذکر ہوچکا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق احادیث میں ہے کہ قضائے حاجت کے لیے بہت دور جانا پسند کرتے تھے تاکہ آپ کو کوئی دیکھ نہ سکے۔دور جانا بجائے خود کوئی مقصد نہیں بلکہ مقصد پردہ ہے۔ اگر قریب ہی میں پردے کا اہتمام ہوجائے تو دور جانے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ گھر میں قضائے حاجت کے لیے بنائے گئے بیت الخلاء سے یہ ضرورت بدرجہ اتم پوری ہوجاتی ہے۔ 2۔ اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے دو احادیث پیش فرمائی ہیں: پہلی حدیث میں شام کی طرف منہ کرنے کا ذکر ہے اور دوسری روایت میں بیت المقدس کے الفاظ ہیں۔ چونکہ یہ دونوں ایک ہی جہت میں واقع ہیں اس لیے ان میں کوئی تضاد نہیں ہے نیز پہلی روایت میں استقبال شام کے ساتھ استدبار کعبہ کی بھی تصریح ہے۔ (فتح الباري: 325/1) 3۔ مذکورہ دونوں روایات میں واقعہ تو ایک ہی بیان ہوا ہے۔ لیکن حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ا س گھر کو ایک روایت میں اپنی ہمیشرہ حضرت حفصہ (زوجہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم) رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا گھر بتایا ہے اور دوسری روایت میں اسے اپنا گھر کہا ہے۔ اس کی توجیہ یہ بیان کی گئی ہے کہ گھر تو حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا تھا، لیکن ان کی وفات کے بعد ورثے میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آ گیا تھا، اس لیے دونوں ہی باتیں درست ہیں۔ ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ گھروں کے اندر قبلے کی طرف منہ یا پیٹھ کا رخ کرنا جائز ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے یزید بن ہارون نے بیان کیا، انھوں نے کہا، ہمیں یحییٰ نے محمد بن یحییٰ بن حبان سے خبر دی، انھیں ان کے چچا واسع بن حبان نے بتلایا، انھیں عبداللہ بن عمر ؓ نے خبر دی، وہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں اپنے گھر کی چھت پر چڑھا، تو مجھے رسول اللہ ﷺ دو اینٹوں پر (قضاء حاجت کے وقت) بیت المقدس کی طرف منہ کئے ہوئے نظر آئے۔
حدیث حاشیہ:
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کبھی اپنے گھر کی چھت اور کبھی حضرت حفصہ کے گھر کی چھت کا ذکر کیا ہے، اس کی حقیقت یہ ہے کہ گھر تو حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ ہی کا تھا۔ مگر حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے انتقال کے بعد ورثہ میں ان ہی کے پاس آ گیا تھا۔ اس باب کی احادیث کا منشاء یہ ہے کہ گھروں میں پاخانہ بنانے کی اجازت ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ مکانوں میں قضائے حاجت کے وقت کعبہ شریف کی طرف منہ یا پیٹھ کی جا سکتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Umar (RA): Once I went up the roof of our house and saw Allah's Apostle (ﷺ) answering the call of nature while sitting over two bricks facing Bait-ul-Maqdis (Jerusalem). (See Hadith No. 147).