تشریح:
1۔ پانی اور برچھی دونوں کا تعلق استنجا سے ہے۔ پانی کاتعلق تو ظاہر ہے اور اسے حدیث کے آخر میں بیان بھی کر دیا گیا ہے اور برچھی اس لیے ساتھ لے جاتے تاکہ سخت جگہ کو نرم کر کے پیشاب کے چھینٹوں سے بچا جا سکے، نیز سخت زمین سے ڈھیلے حاصل کرنے کے لیے بھی اسے کام میں لایا جاتا تھا۔ اس سے اور بھی کام لیے جاتے تھے، مثلاً: (الف)۔ موذی جانوروں سے اور دشمنوں کے شر سے بچنے کے لیے اسے کام میں لایا جاتا۔ (ب)۔ اسے بوقت نماز بطور سترہ آگے گاڑدیا جاتا۔ لیکن پانی کے ساتھ اسے لے جانے کا مقصد صرف یہ تھا کہ اس سے زمین کونرم کیا جائے اور اس سے ڈھیلے حاصل کیے جائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پانی اور مٹی کے ڈھیلے استعمال کرنا پسند تھا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے پانی اور ڈھیلوں کا جمع کرنا ثابت فرمایا ہے۔ اس کا ایک قرینہ یہ بھی ہے کہ اس باب کو ’’استنجا کے لیے پانی ہمراہ لے جانا‘‘ اور ’’پتھروں سے استنجا کرنا۔‘‘ (جو آگے آرہا ہے) ان دونوں کے درمیان بیان کیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک پانی اورڈھیلوں کا جمع کرنا سب سے بہتر عمل ہے۔
2۔ اس سے پہلے ہشام بن عبدالملک اور سلیمان بن حرب نے اسی روایت کو حضرت شعبہ سے بیان کیا ہے۔ ان کی بیان کردہ روایت میں(عَنَزَة) کا اضافہ نہیں ہے، اس بنا پر شبہ ہو سکتا تھا کہ شاید مذکورہ روایت میں شعبہ سے بیان کرنے والے محمد بن جعفر کے یہ الفاظ درست نہ ہوں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے متابعت بیان کرکے اسی شبے کا ازالہ فرمایا ہےکہ یہ اضافہ درست ہے، چنانچہ نضر بن شمیل کی روایت سنن نسائی (الطھارة، حدیث:45) میں اور شاذان بن عامر کی روایت صحیح بخاری (الصلاة، حدیث: 500) میں ہے۔ ان روایات میں(عَنَزَة) کی صراحت ہے، نیز آخری روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ جب آپ قضائےحاجت سے فارغ ہو جاتے تو ہم پانی کا برتن آپ کو دے دیتے۔
3۔ (يَدْخُلُ الْخَلاَءَ) سے مراد خلوت کی جگہ میدان وغیرہ ہے۔ گھروں میں بنے ہوئے بیت الخلاء مراد نہیں کیونکہ گھر میں اس قسم کی خدمت اہل خانہ بجالاتے تھے، نیز گھروں میں برچھی وغیرہ ساتھ لے جانے کی ضرورت نہیں تھی، پھر گزشتہ روایت میں اس کی وضاحت بایں الفاظ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حاجت کے لیے باہرجاتے۔